کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
یہاں کیا رکھا ہے! بھلے چنگے نوجوان اس امید پر وقت گزار رہے ہیں کہ محنت کرنی ہے تو یورپ جا کر ہی کریں گے
موت بر حق ہے اور اس کا ایک وقت معین ہے ۔ بزرگوں سے اکثر سنا کہ اللہ تعالی چلتے پھرتے یہ وقت لائے، اپنوں کے درمیان ہوں، ' اس وقت' دیارِ غیر ہونے کے عذاب سے بچائیو۔ گزشتہ چند روز میں چار واقعات نے ان دعاؤں کو پھر سے تازہ کر دیا۔
پہلا واقعہ؛ ٹائٹینک جہاز کا ملبہ سمندری حیات و آثار کے شوقین لوگوں کے لیے آج بھی دلچسپی کا باعث ہے۔ یہ ملبہ دیکھنے ایک نجی آبدوز اپنے پائلٹ سمیت پانچ لوگوں کو لے کر تہہ سمندر روانہ ہوئی۔ یہ آبدوز اس سفر پر بارہا گئی لیکن اس بار رزقِِ تہہ آب ہو گئی۔
آبدوز کا رابطہ منقطع ہوا تو ڈھنڈیا پڑی کہ کیا ہوا؟ کہاں یہ واقعہ ہوا؟ کون کون اس میں سوار تھا؟ تفصیلات کے مطابق معروف پاکستانی صنعت کار خاندان داؤد فیملی کے شہزادہ داؤد اور ان کے جواں سال بیٹے سلیمان بھی ان پانچ مسافروں میں شامل تھے۔
دونوں کو سائنس فکشن، فوٹوگرافی اور سمندری حیات و آثار کا شوق تھا۔ یہ شوق انھیں اس بار وہاں لے گیا جہاں سے واپسی نہ ہوسکی۔ کوئی بے چارگی سی بے چارگی ہے، کوئی بے بسی سی بے بسی ہے! یہ واقعہ عین کینیڈا اور امریکا کے درمیان کھلے سمندر میں ہوا، یہ لوکیشن بہت دور ازکار اور مشکل ہے۔
امریکی کوسٹ گارڈز کے مطابق ؛ بدقسمتی سے یہ آب دوز ایک سنگین حادثے کا شکار ہوئی، غالباً پریشر کی وجہ سے ، اس کا ملبہ تباہ شدہ ٹائی ٹینک جہاز کے نزدیک دیکھا گیا ہے۔ اس حادثے میں کسی کے بچنے کا امکان نہیں۔ دو پاکستانیوں کی موت اور وہ بھی ان حالات میں افسردہ کر گئی۔ دوسرا واقعہ؛ ہمارے ایک رفیق کار کے بڑے بھائی پچاس برس سے کچھ کم عمر کے تھے۔
سعودی عرب میں ایک آئل کمپنی کی آئل ریگز اور بحری جہازوں کے ریڈار انجئنیر تھے۔ سالہاسال سے فیملی کے ہمراہ وہیں مقیم تھے، زندگی خوشگوار انداز میں گذر رہی تھی۔ پیچھے اپنی فیملی کو بھی خوب سپورٹ کیا، اب واپسی کی ٹھان لی تھی۔
پروگرام تھا کہ اس عید کے بعد مستقل واپسی کا رخت سفر باندھیں گے، قدرت کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا۔ گزشتہ ہفتے ایک شام سے کچھ پہلے بحری جہاز کے ریڈار ٹاور پر چڑھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ سینے میں درد محسوس ہوا۔ سفری اسپتال پہنچنے سے پہلے خالق حقیقی کو جا ملے۔ سب پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی ۔
آخری وقت کیا ہوا؟ اس سوال کی تفصیل سننے کے بعد اپنی قسمت پر صبر شکر کرنے کے سوا چارہ نہ تھا لیکن خاندان کو تمام تفصیلات جاننے کے بعد ایک تسلی سی ہوگئی۔ اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر آنسو پیتے ہوئے صبر کر لیا۔ تیسرا واقعہ؛ سنو! مرنے والا تمہارا بھائی اور میرا خاوند تھا اور اس ملک کا قانونی شہری، اس کی تدفین یہیں ہو گی۔
بھول جاؤ کہ تم اس کی میت پاکستان لے جا سکو گے۔ رفیق لگ بھگ چودہ برس قبل بہتر زندگی اور روزگار کی تلاش میں برازیل پہنچا۔ قانونی حیثیت کے لیے ایک مقامی خاتون سے شادی کرنی پڑی۔ اس دوران اس نے پاکستان میں اپنی فیملی کو ہمیشہ سپورٹ کیا۔
کچھ ماہ قبل اس نے بتایا کہ آپ لوگ تیار رہیں، عید کے بعد آؤں گا، ویزے لگوا کر سب فیملی کو یہیں لے آؤں گا۔ اس مقصد کے لیے معقول رقم کا بھی بندوبست کر لیا ہے۔ چند دنوں بعد گزشتہ ماہ اطلاع ہوئی کہ شدید علالت کے سبب آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا۔ بھیجی گئی تصاویر اور وڈیو کلپس کے مطابق حالت تشویشناک تھی ۔
ایک ہفتے بعد خبر ملی کہ وہ چل بسا، تدفین کر دی گئی، تصاویر اور وڈیو شیئر ہوئیں تو یقین کرنا پڑا۔ اہل خانہ کے دل میں وسوسوں کا جھکڑ چلا، سوالوں کے جواب لیں تو کس سے لیں۔ برازیلین بیوی نے فون اور سوشل میڈیا پر یہاں کے فیملی ممبرز کو بلاک کر دیا۔
پاکستانی سفارت خانے کے ایک اہلکار اور ایک شناسا سے یہی معلوم ہو سکا کہ نمونیا کے باعث اسپتال داخل رہا، اور موت اور تدفین کی تصدیق کی۔ سب کچھ الجھ کر فاصلوں اور شکوک کی دھند میں اٹک گیا۔ ہاں ایک گہرا دکھ اور پچھتاوا دبیز چادر کی مانند لپٹ گیا۔
چوتھا واقعہ؛ یونانی ساحل کے نزدیک کشتی حادثے میں ڈیڑھ سو سے زائد پاکستانی جان کھو بیٹھے یا ابھی تک لاپتہ ہیں۔ تفصیلات دل خراش ہیں۔
یونان کے کوسٹ گارڈز کے روئیے پر عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے تنظیموں نے کڑی گرفت کی کہ انھوں نے بروقت مدد نہ کی۔ حکومت پاکستان نے فوراً وہ ''سب کچھ'' کیا جو ایسے موقعوں پر حکومتوں کا دستور ہوتا ہے؛ وزیر اعظم نے واقعے کی شدید مذمت کی ۔ انتہائی برہم ہوئے کہ انسانی اسمگلروں نے کیا سمجھ رکھا ہے۔
ایف آئی اے نے ایجنٹوں کی پکڑ دھکڑ کرکے حکومت کی بروقت کارروائی کی میڈیا نمائی کی۔ ایک کمیٹی بنا دی گئی، ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا پابند کر دیا گیا ۔
اس سے زیادہ اور کوئی حکومت کیا کر ے!سولہ سے چوبیس لاکھ فی کس ادا کرکے اٹلی کے ساحلوں پر اچھی زندگی کی تلاش میں جانے والوں کی اکثریت گوجرانوالہ ڈویژن سے تھی، دو درجن سے زائد آزاد کشمیر سے تھے ۔چند اضلاع میں جنون ہے کہ فلاں فلاں کا لڑکا یورپ گیا، موج کر رہا ہے، سیٹ ہے، گھر والوں کو بھی پیسے بھیج رہا ہے۔
یہاں کیا رکھا ہے! بھلے چنگے نوجوان اس امید پر وقت گزار رہے ہیں کہ محنت کرنی ہے تو یورپ جا کر ہی کریں گے۔ موت بر حق ہے مگر یوں کہ دیوانے بھی غارت ہو جائیں اور اپنے پیچھے ویرانے بھی اداس کر جائیں ۔ رام نرائن موزوں یاد آئے؛
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری