چین کے 100برس اور ترقی کا بیانیہ
دنیا میں آج کی ڈپلومیسی کی کنجی مضبوط معیشت کے نظام سے جڑی ہوئی ہے او ریہ ہی ہماری توجہ کا مرکز ہونا چاہیے
آج کل پاکستان کے مستقبل کے تناظر میں یہ نقطہ زیر بحث ہے کہ ہمیں اپنی ترقی کے لیے امریکا اور چین میں سے کس پر انحصار کرنا چاہیے۔
قیوم نظامی پاکستان کے علمی و فکری حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب '' چین کے 100سال'' ماوزے تنگ سے شی چن پنگ تک سامنے آئی ہے جسے ادارہ علم وعرفان نے شایع کیا ہے۔
اس کتاب میں ہمیں ماوزئے تنگ سے کر موجودہ صدر شی چن پنگ تک چین کے نظام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چین نے اپنے عدالتی نظام میں تسلسل کے ساتھ جو اصلاحات کیں او راس کا بنیادی نقطہ عدالتی نظام میں عدم مداخلت کا ہے ۔چین نے اپنے گورننس کے نظام کو زیادہ فوقیت دی ہے۔معیشت کی ترقی کی ایک کنجی نئی نسل کو معاشی سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے اور چھوٹی سطح پر نئی نسل کا معاشی سرگرمیوں کا حصہ بننا ہی چین کی بڑی معیشت کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔
قیوم نظامی لکھتے ہیں کہ ''چین میں انقلاب سے پہلے دیہات میں رہنے والے عوام اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔ جاگیر دار ان کا غلاموں کا طرح استحصال کرتے تھے ۔ایک طرف قدرتی آفات تو دوسری طرف غیر انسانی سلوک ہوتا تھا ۔مائوزے تنک نے طویل لانگ مارچ کے دوران غریب دیہاتیوں کی حالت زار کو دیکھا تھا ان کو علم تھا کہ جاگیر داری نظام سیاسی ،سماجی او رمعاشرتی مسائل پیدا کرتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ چین میں مساوی ترقی، مواقع او رمراعات کے اصول پر عمل کرکے ترقی و خوشحالی کی منزل طے کی گئی۔
دیہات میں وسائل کی منصفانہ تقسیم او رمساوی مواقع سے غربت کا خاتمہ ہوااور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے آمدنی منصفانہ طور پر تقسیم ہونے لگی او راس کے نتیجے میں تعلیم اور علاج کی سہولتیں فراہم ہونے لگیں ۔چین کی قیاد ت نے باہر کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے مقامی وسائل پر بھروسہ کیا ۔چین کی قیادت نے اہم کام مقامی حکومتوں کو مضبوط اور مستحکم بنایا ۔ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا ۔ عوام کو سیلف رول کا حق دیا۔ چین کے دہیاتوں کی ترقی نے عملا شہروں کی ترقی کی بنیاد رکھی ۔
کیمونسٹ پارٹی نے تاریخ کے ہر موڑ پر عوام کے مفاد کو ترجیح دی ۔پارٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چین کے عوام کو سامراجیت ، جاگیردارانہ او رسرمایہ دارانہ نظام سے نجات دلاکر عوام کو بلا امتیاز مساوی حقوق، مواقع او رمساوی مراعات حاصل ہوں اور استحصال کی ہر شکل ختم کردی جائے۔
چین کی کہاوت ہے کہ اگر آپ عوام کی طاقت کو استعما ل کرنے کا ہنر جانتے ہیں تو آپ ناقابل شکست بن سکتے ہیں او راگر آپ عوام کی عقل کو کام میں لاسکتے ہیں توکوئی عقلمند آپ سے زیادہ زیرک اور دانا نہیں ہوسکتا، چین کے نظام میں عوام کی اہلیت، صلاحیت اور اوصاف کو نہ صرف پروان چڑھایا جاتا ہے بلکہ قوم کے اجتماعی مفاد کے لیے ان کو بروئے کار بھی لایا جاتا ہے ۔ چین میں پیپلزڈیمو کریسی کا نظام نافذ ہے ۔اس نظام کی بنیاد عوام کی شرکت پر رکھی گئی۔
مقامی سطح پر عوام اپنے نمایندے منتخب کرتے ہیں جس سے سماجی اور سوشلسٹ جمہوریت وجود میں آتی ہے ۔کرپشن کے خاتمہ کے لیے سخت سزائیں رکھی گئیں کیونکہ ان کے بقول منصفانہ ترقی میں کرپشن ایک بڑی بیماری ہے جسے سخت سزاوں کی مدد سے ہی کم کیا جاسکتا ہے ۔چین کا سیاسی و ریاستی نظام نیشنل پیپلز کانگریس یعنی پارلیمنٹ جہاں واحدانی ریاستی نظام ہے اور یہ ریاست کا ایک ہی ایوان ہے، ریاستی کونسل ایک ایگزیکٹو ادارہ ہے جو نیشنل پیپلز کانگریس کی ہدایات پر کام کرتا ہے۔
سینٹرل ملٹری کمیشن , لیگل سسٹم ,مقامی حکومت, صوبائی حکومت او رمقامی جمہوریت پر کھڑا ہے تاکہ چین کی مجموعی ترقی میں سب ہی کردار اپنا اپنا حصہ ڈال سکیں۔
چین کا بڑا کارنامہ لوگوں کو غربت کی زندگی سے باہر نکالنا تھا ۔چین نے 90ملین چینی شہریوں کو غربت سے باہر نکال کر معجزہ دکھایا ۔ ہمیں بھی ایسی قیادت درکار ہے جو واقعی تمام تر مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی ترقی کے عمل میں وہ کردارادا کرے جو ہماری ریاستی ضرورت بنتا ہے۔
دنیا میں آج کی ڈپلومیسی کی کنجی مضبوط معیشت کے نظام سے جڑی ہوئی ہے او ریہ ہی ہماری توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ اس لیے جو لوگ بھی پاکستان میں بیٹھ کر چین کے نظام کو تنقیدی یا تعریفی بنیاد پر سمجھنا چاہتے ہیں کہ آج چین کیسے ایک بڑی معاشی طاقت بنا ہے تو ان کو یقینی طو رپر قیوم نظامی کی اس کتاب ''چین کے 100برس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔