یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
فلم ’’کوئل‘‘ سے لے کر فلم ’’ لاکھوں میں ایک ‘‘ تک پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر نامور موسیقار کے ساتھ کام کیا
آج مجھے شدت سے مشہور شاعر تنویر نقوی کا ایک فلمی گیت یاد آ رہا ہے، جو انھوں نے فلم سازوہدایت کار شوکت حسین رضوی کی شہرہ آفاق فلم جگنو کے لیے لکھا تھا، جسے گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا اور جس کے بول تھے۔
یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
محبت کرکے بھی دیکھا، محبت میں بھی دھوکا ہے
آج میرے کالم کی شخصیت شاعر تنویر نقوی ہیں۔ اب میں تنویر نقوی کی ابتدائی زندگی اور فلمی گیتوں کے سفر کی طرف آتا ہوں، تنویر نقوی کا گھریلو نام سید خورشید علی تھا، یہ 6 فروری1919 میں لاہور شہر میں پیدا ہوئے تھے، ان کے آبا ئواجداد کا تعلق ایران سے تھا اور ان کے والدین ایران سے ہجرت کر کے غیر منقسم ہندوستان میں آ کر بس گئے تھے، تنویر نقوی نے لاہور ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، ان کے والد اور بڑے بھائی بھی اچھے شاعر تھے اور ان کے والد نے ابتدا فارسی میں شاعری سے کی تھی پھر اردو شاعری کی طرف بھی آئے، والد کی وجہ سے ہی تنویر نقوی کو شاعری کا شوق نوعمری ہی میں ہوگیا تھا۔
اس زمانے میں لاہور میں فلم انڈسٹری بہت کمزور تھی، ایک دو فلم اسٹوڈیو ہی تھے جب کہ کلکتہ اور بمبئی کی فلم انڈسٹری میں چہل پہل تھی۔ تنویر نقوی نے ابتدا لاہور کی چند فلموں کے لیے گیت لکھ کر کی اور بمبئی چلے گئے تھے وہاں ان کی ہدایت کار اے آر کاردار، شوکت حسین رضوی اور ہدایت کار محبوب خان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ تنویر نقوی نے بمبئی میں پہلا گیت ہدایت کار و فلم ساز شوکت حسین رضوی کی فلم خاندان کے لیے لکھا:
جا اڑ جا پنچھی اڑ جا
مگر تنویر نقوی کو شہرت فلم ساز و ہدایت کار محبوب خان کی فلم انمول گھڑی سے ملی جو 1946 میں ریلیز ہوئی تھی جس میں نور جہاں، ثریا، سریندر اور ظہور راجہ وغیرہ نے کام کیا تھا۔ محبوب خان نے انجم پیلی بھیتی کو اپنی فلم کے گیتوں کے لیے منتخب کیا تھا۔ ابھی انھوں نے فلم انمول گھڑی کے لیے ایک ہی گیت لکھا تھا جس کے بول تھے:
کیا مل گیا بھگوان مرے دل کو دکھا کے
ارمانوں کی نگری میں میری آگ لگا کے
یہ فلم میں میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور انھی پر فلمایا گیا تھا، یہ اس فلم کا بہت ہی متاثر کن گیت تھا، اب گیت کا کیا پس منظر تھا کہ شاعر انجم پیلی بھیتی کی زندگی کا درد ناک گیت بنا تھا اور شاعر انجم پیلی بھیتی کو ایک شقی القلب شخص نے لوٹنے کی غرض سے بازار حسن کے قریب مزاحمت کرنے پر قتل کردیا تھا اور اس طرح ان کی زندگی کا چراغ ہی گل ہو گیا تھا، فلمی حلقوں میں ان کے قتل کا سوگ بھی منایا گیا تھا۔
پھر ہدایت کار محبوب خان نے اپنی فلم کے گیتوں کے لیے تنویر نقوی کو منتخب کیا تھا اور تنویر نقوی نے فلم انمول گھڑی کے باقی تمام گیت لکھے تھے اور وہ سارے گیت سپرہٹ ہوئے تھے، انمول گھڑی میں اس وقت کی مشہور گلوکارہ و اداکارہ ثریا نے بھی میڈم نور جہاں کے ساتھ لینڈنگ رول کیا تھا، جوگیت بہت مقبول ہوئے ان میں خاص طور پر نور جہاں کے گائے ہوئے گیت:
جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ
.........
آواز دے کہاں ہے دنیا مری جواں ہے
.........
آ جا مری برباد محبت کے سہارے
ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے
اسی فلم میں گلوکارہ و اداکارہ ثریا کا بھی ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے۔
میں دل میں درد بسا لائی
نینوں سے نین ملا لائی
اسی فلم میں گلوکارہ شمشاد بیگم کے گائے ہوئے ایک گیت کو بھی بری شہرت ملی تھی۔
اڑن کھٹولے پہ اڑ جاؤں
ترے ہاتھ نہ آؤں
اس گیت میں اس دور کی ایک اور مشہور گلوکارہ زہرہ بائی انبالے والی نے بھی شمشاد بیگم کا ساتھ دیا تھا، فلم انمول گھڑی کے دو موسیقار تھے ایک نوشاد اور دوسرے غلام محمد اور فلم کی کامیابی میں ان دونوں موسیقاروں کا بڑا کریڈٹ تھا۔ تنویر نقوی کے گیتوں نے سارے برصغیر میں جس دوسری فلم کے ساتھ بری دھوم مچائی وہ فلم ساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی، جس میں نور جہاں کے ساتھ دلیپ کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا اور جگنو ہی سے دلیپ کمار لائم لائٹ میں آیا تھا جب کہ دلیپ کمار کی پہلی فلم جوار بھاٹا تھی جو ناکام ہوگئی تھی مگر دلیپ کمارکا فلمی سفر اسی فلم سے شروع ہوا تھا، اسی دوران تنویر نقوی کی ملاقات مشہور فلم ساز و ہدایت کار کے۔آصف سے ہوئی، انمول گھڑی کے خوبصورت گیتوں سے متاثر ہو کر کے۔آصف نے اپنی فلم مغل اعظم کے گیتوں کے لیے تنویر نقوی کا انتخاب کیا ابھی مغل اعظم کی موسیقی پر کام ہو رہا تھا اور فلم کی کاسٹ فائنل نہیں ہوئی تھی، کے۔آصف نے فلم کے لیے ایک نیا چہرہ منتخب کیا وہ پسند نہیں آیا پھر نرگس سے بات چیت ہوئی، نرگس کی بھی کے۔آصف کے درشت لہجے کی وجہ سے کچھ بات نہ بن سکی تھی پھر بہت بعد میں دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالا کو ہیروئن لیا گیا تھا۔ تنویر نقوی نے مغل اعظم کے لیے دو تین گیت لکھے جو کے۔آصف کو پسند بھی آئے مگر تنویر نقوی بھی کے۔آصف کی جھگڑالو طبیعت اور متکبرانہ انداز گفتگو سے دل برداشتہ ہوکر اس کی پروڈکشن سے وابستہ نہ رہ سکے اور جو گیت انھوں نے فلم کے لیے لکھے تھے وہ پھر انھوں نے بعد میں ایک گیت جس کے بول تھے۔
مجھ پہ الزام بے وفائی ہے
اے محبت تری دہائی ہے
اے آرکاردار کی فلم یاسمین کے لیے ریکارڈ کرایا تھا جس کے موسیقار سی رام چندر تھے اور جسے لتا منگیشکر نے گایا تھا اور پھر مغل اعظم کے لیے لکھا گیا، اپنا دوسرا گیت انھوں نے جب وہ بمبئی سے دوبارہ لاہور پاکستان بننے کے بعد آئے تھے تو پاکستانی فلم انار کلی کے لیے ریکارڈ کرایا تھا جس کے موسیقار ماسٹر عنایت تھے اور جو میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور انھی پر وہ عکس بند ہوا تھا جس کے بول تھے:
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتائیں
جب کہ مغل اعظم ہی کے لیے لکھا ہوا ایک اورگیت تنویر نقوی نے بعد میں فلم شیریں فرہاد کے لیے ریکارڈ کرایا تھا جس کے بول تھے۔
گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا، حافظ خدا ہمارا
شاعر تنویر نقوی نے بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنی دھاک جمائے رکھی تھی اور پھر جب بمبئی سے دوبارہ لاہور آئے تو لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنے گیتوں سے ایک جان ڈال دی تھی، فلموں کی ایک آبشار تھی جو تنویر نقوی کے دلکش گیتوں سے بنتی چلی گئی تھی۔
فلم ''کوئل'' سے لے کر فلم '' لاکھوں میں ایک '' تک پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر نامور موسیقار کے ساتھ کام کیا اور ایسے ایسے گیت تخلیق کیے کہ آج بھی ان گیتوں کی بازگشت فضاؤں میں رچی بسی ہے،آج بھی ان کا لکھا ایک ایک گیت دلوں پر دستک دیتا ہے اور دل جھوم جھوم اٹھتا ہے۔