خیبرپختونخوا کے لیے نئے تجارتی مواقع

یہ ایک بہتریں موقع ہے لیکن اس کو موقع ایک مربوط وفاقی سوچ اور اوپرچ کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا


جمشید باغوان June 26, 2023

مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے صدر انجینئرامیر مقام پر ان کے آبائی علاقے شانگلہ میں حملہ کیا گیاہے، اﷲ نے انھیں اورمحافظوں کو محفوظ رکھا، کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

ادھر پشاور میں غیرمسلم اقلیتوں کے افراد کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے ، ان واقعات کی ذمے دار داعش لے رہی ہے۔ داعش خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی اہلکاروں اور اقلیتوں خصوصاً سکھ برادری کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مارچ میں سکھ دکاندار دیال سنگھ کو قتل کیا گیا، گزشتہ دنوں پشاورشہر میں ہی منموھن سنگھ کو قتل کر دیا گیا۔

اس سے قبل فروری میں ایک مسیحی نوجوان کاشف مسیح کو داعش نے مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا۔ خیبر پختونخوا میں مسلسل اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انٹیلی جنس اداروں کے تعاون کی وجہ سے خیبر پختونخوا پولیس کو اگرچہ کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ داعش اور ٹی پی پی ایک دوسرے سے تعاون کررہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام پر حملہ اگرچہ ناکام ہوا ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان پر پہلے بھی دہشت گردانہ حملہ ہوچکا ہے۔

جب سپریم کورٹ میں خیبرپختونخوا میں صوبائی انتخابات کرانے کے حوالے سے دائر کیس کی ابتدائی سماعت ہو رہی تھی ، تب ٹی ٹی پی یہ اعلان کر چکی تھی کہ ان کا سیاسی جماعتوں کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں کو نشانہ بنانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔

اس وقت عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے فی الفور انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے ، عمران خان ہی کے مطالبے پر سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا جس میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا تھاکہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔

انھیں دنوں پشاور پولیس لائن کا واقعہ بھی ہوچکا تھا جس میں 100 کے قریب جوان اور شہری شہید ہوئے تھے۔گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے کھل کر کہا تھا کہ وزیرستان سے بیلٹ پیپر واپس لانے کی کون ضمانت دے گا؟ اسی دوران میں تحریک طالبان نے اعلان کیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں اور نہ ہی وہ سیاسی اجتماعات اور جلوسوںکو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مطلب کہ ٹی ٹی پی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔

یوں عمران خان کے الیکشن کرانے کے موقف کو تقویت ملی، تحریک طالبان پاکستان کے اس اعلان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان کو دھمکیاں ملیں۔ رمضان المبارک کے ایام میں پولیس نے خود کش بمبار اور اس کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو گرفتار کیا تھا، انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ ایمل ولی خان کو عید الفطر کے دن نشانہ بنانا چاہتے تھے ۔ اب تحریک طالبان نے وفاق میں برسراقتدار مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر کو نشانہ بنایا ہے۔ امیر مقام پر پہلے بھی حملے ہوئے ہیں۔

ان پر پہلا خود کش حملہ پشاور میں ان کے حیات آباد والے گھر میںاس وقت ہوا تھا جب خود کش دھماکے اتنے عام نہیں تھے، دہشت گردی کی اس واردات میں ان کے قریبی عزیز ، سیاسی استاد اور زیرک سیاستدان پیر محمد خان کی شہادت ہو گئی تھی۔

اب کی بار تو تحریک طالبان نے ان پر حملے کی ذمے داری قبول کرکے اپنے اس اعلان اور وعدے کو توڑ دیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ اے این پی تو پہلے ہی سے تحریک طالبان کے نشانہ پر تھی، اب مسلم لیگ بھی اس صف میں شامل ہو گئی ہے۔

امیر مقام پر حملے کے بعد مرکزی حکومت خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف کو بھی صوبے میں امن و امان اور دہشت گردی کے خطرے کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اب ہمارا مقابلہ صرف تحریک طالبان سے نہیں بلکہ داعش سے بھی ہے۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان اشتراک اور تعاون اب کھل کر سامنے آچکا ہے ۔

افغان طالبان کو مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ ٹی پی پی کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھائے ، کچھ نہ کچھ عمل نظر آبا شروع ہوئی ہے لیکن کابل پر دباؤ مزید بڑھانا چاہیے کیونکہ روس کے ساتھ ایل پی جی کے ذریعے کھلنے والی نئی تجارت خطے کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

یہ تجارتی روٹ اگر کھل جاتا ہے اور راستے محفوظ ہوجاتے ہیں تو اس کا پاکستان کو ہی نہیں بلکہ افغانستان کو بھی فائدہ ہو گا ، اس تجارت سے خیبر پختوا نخوا کے شہری براہ راست مستفید ہوں گے۔ اگر طالبان حکومت افغانستان میں اس تجارت روٹ کو تحفظ فراہم کرتی ہے تو پاکستان کے اندر تجارتی قافلوں کی پرامن آمد ورفت آسان ہوجائے گی۔

وفاقی حکومت خیبرپختونخوا حکومت کو امن و امان قائم کرنا ہوگا بلکہ طور خم سمیت تجارتی راہداریوں پر سہولیات میں اضافہ سمیت رکاوٹوں کو بھی دور کرنا ہو گا، اگرچہ حکومت نے ایک نئی اتھارٹی قائم کرنے کی منظوری دی ہے لیکن سرحدوں پر یہ تجارت اب ون ونڈو آپریشن کے ذریعے بہتر اورتیز ترین ہونی چاہیے۔

سرحد پر تجارتی ساز و سامان سے لدھے ٹرکوں کو جلد از جلد فارغ کرکے روانہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس مہینے روس سے آنے والی ایل پی جی جو ازبکستان کے راستے پاکستان پہنچی ہے ، اسے کلیئر کرنے میں بھی 3 ہفتے لگ گئے۔ تقریباً 3 ہفتے یہ ٹینکرز افغانستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر کلیئرنس کا انتظار کرتے رہے۔ تجارت ہی کے ذریعے معیشت درست کی جا سکتی ہے اور بہتر معیشت کے ذریعے دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ روس سے شروع ہونے والی تجارت ایک نئے باب کا آغاز ہے۔

یہ تجارت صرف روس تک محدود نہیں رہے گی سینٹرل ایشیاء کے ساتھ یورپ کی منڈیاں بھی کھل سکتی ہیں۔ اسی لیے خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت، تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو باہم مل کر ایک دیرپا اور مربوط پالیسی تیار کرنی چاہیے تاکہ اس تجارت کے فوائد سے خیبر پختونخوا اپنا حصہ وصول کر سکے۔

اگر آپ کو یاد ہو تو افغانستان میں امریکا کے آنے کے بعد قبائلی علاقوں میں اکنامک زون بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن بوجوہ اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ حکومت کو جنگی بنیادوں پر صوبائی تجارتی پالیسی دینی چاہیے جس میں پاک افغان سرحد کے قریب نئے کارخانے، فنی تربیت اور مال کو محفوظ بنانے سمیت چھوٹے چھوٹے کاروبار پر بھی توجہ دی جائے۔

یہ ایک بہتریں موقع ہے لیکن اس کو موقع ایک مربوط وفاقی سوچ اور اوپرچ کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کبھی کبھی موقع دیتا ہے، اگر خیبرپختونخوا کا کاروباری طبقہ اور سیاسی قیادت اقتدار کی جنگ سے باہر نکل کر عوام کے مفاد میں سوچے تو...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں