دائروں کا سفر اور ہماری ترجیحات
کیا وجہ ہے کہ ہم پیچھے ہیں اور پیچھے رہنے میں خود ہمارا اپنا کیا کردارہے اور کیوں ہم اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیارنہیں
پاکستان کی ریاست، حکومت اور اداروں سمیت عوام ایک ایسے بحران کا شکار ہیں جس کا علاج تلاش کرنے میں ہم فکری انحطاط یا فکری تضاد یا فکری مغالطوں کا شکار ہیں۔
ہم بحران سے باہر نکلنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اس بحران سے نکلنے کے لیے جو حکمت ہمارے پاس موجود ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہورہی۔جو بھی حکومت آتی ہے اس کا ترقی پر مبنی بیانیہ تواتر کے ساتھ ناکامی کا شکار ہے اور جو نتائج ہم دیکھ رہے ہیں اس نے ہماری داخلی و خارجی سطح پر سیاسی تنہائی میں اور زیادہ اضافہ کردیا ہے ۔
لیکن ہماری سیاسی ، سماجی ، معاشی یا انتظامی و قانونی ترقی کے سفر کا دائرہ ہر روز یا ہر بار ای نئے تجربوں سے گزررہا ہے ۔ کیونکہ ہم تجربات کرنے میں ماہر ہیں اور نظام میں تسلسل پیدا کرنے کے بجائے تواتر کے ساتھ تجربو ں کو بنیاد بنا کر قومی سیاست میں اپنی سیاسی مہم جوئی کا کھیل خوب کھیل رہے ہیں ۔مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کا کھیل ختم ہونے کے بجائے آج بھی بڑی شدت سے کھیلا جا رہا ہے ۔
ہمارا یہ بحران محض سیاسی یا معاشی نوعیت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک بڑے ریاستی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔کیونکہ جب سیاست میں ٹکراؤ کا منظر یا ایک دوسرے پر عدم اعتمادی کا ماحول غالب ہوجائے تو ترقی کے امکانات کم اور محاذآرائی یا انتشار پر مبنی کھیل کے امکانات زیادہ غالب ہوجاتے ہیں۔ ہماری کہانی بھی کچھ ایسے ہی ہے ۔
قومی ترقی کی بنیاد پر تجربوں کا کھیل تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور کوئی بھی ماضی کی غلطیوں سمیت دنیا کے جدید تجربوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارا دائروں کا سفر ہماری ذاتی ترقی یا ذاتیات پر مبنی سیاسی اور معاشی مفادات تک محدود ہوگیا ہے۔ اس عمل نے پورے ریاستی نظام کو مفلوج کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی جمہوری یا غیر جمہوری نظام ہمیں جذباتیت یا نعروں اور سیاسی بھڑکوں کے درمیان ہی قید رکھنا چاہتا ہے۔
جو بھی آتا ہے وہ سب سے پہلے آکر پہلے سے موجود نظام کی سرجری کرتا ہے یا اس کو بند کرکے اپنی مرضی کا نیا نظام سامنے لاکر نیا تجربہ سب کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی حکمران ہو اس کا اپنا لایا ہوا نظام اور پہلے سے موجود نظام کی نفی کرکے ہم کیسے قومی ترقی کے دائرہ میں قدم جماسکتے ہیں۔
سیاست اور حکومت میں کوئی بھی اپنی سطح پر غلطیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور خود کو نیک سمجھ کر اپنے سیاسی مخالفین پر ناکامی کو بڑا ملبہ ڈال کر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ سیاست ، جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی یا عوامی مفادات پر مبنی سیاست جیسی باتیں اب ہمیں کتابوں یا سیاسی واعظوں میں ہی سننے کو ملتی ہے ۔جب قومی سطح پر آئین ،قانون ، جمہوریت اور سیاست کی تعریفیں سب ہی فریق خود ہی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کررہے ہیں ۔اسی وجہ سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
یہ اعتراف بھی کیاجانا چاہیے کہ جمہوریت کو بطورہتھیار یہاں استعمال کیا جارہا ہے اور ملک میں بڑی تیزی سے جمہوریت کے آگے بڑھنے کے مواقعے کمزور اور محدود ہوتے جارہے ہیں ۔ اس میں کچھ کھیل یقینی طور پر غیرسیاسی قوتوں کا ہے جو سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا عملی ایجنڈا رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک بڑا کردار خود ہمارے نام نہاد جمہوریت پسند لوگوں کا بھی ہے جو خود اپنے ہاتھوں سے جمہوری عمل کو کمزور کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ، وکلا تنظیمیں ، سول سوسائٹی ، میڈیا اور اہل دانش کی سطح پر موجود رائے عامہ بنانے والے افراد کی عدم فعالیت پورے جمہوری نظام پر ایک بڑے سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہے ، مگر ہم اس کمزور ہوتی ہوئی یا ہم سے دور ہوتی ہوئی جمہوریت کے عمل سے لاعلم ہیں یا اپنی بے بسی یا اپنے ذاتی مفادات کی بنیاد پر بے بسی یا سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہیں ۔
خدارا اس ملک کو محض اپنی خواہشات اور مفادات کی تجربہ گاہ نہ بنائیں اور کچھ دنیا سے سیکھیں کہ وہ کیسے ترقی کے عمل میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ہم پیچھے ہیں اور پیچھے رہنے میں خود ہمارا اپنا کیا کردار ہے اور کیوں ہم اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سیاسی چورن کب تک قوم کے سامنے بیچا جائے گاکہ ہماری ترقی کی بڑی دشمن غیر ملکی سطح پر ہونے والی عالمی سازشیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی سازش کررہا ہے تو ہم اس کا مقابلہ کیونکر نہیں کرپارہیا۔ محض جذباتیت اور لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر گمراہ کرکے ہم کیسے ترقی کے مضبوط سفر میں داخل ہوسکتے ہیں۔
ہمارا سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی اور معاشی روڈ میپ کہاں ہے ا ور کیوں ہمیں یہ نظر نہیں آرہا کہ ہمارا حکومتی نظام عملی طور پر درست سمت پر جارہا ہے۔ نوجوان جو بڑی سیاسی طاقت ہیں ان کے لیے باعزت روزگار کی فراہمی ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ جہاں انڈسٹری نہیں لگے گی یا داخلی یا خارجی سرمایہ کاری نہیں ہوگی وہاں معیشت کی بحالی کی باتیں بھی سیاسی تقریروں سے کم نہیں ۔
ہمارا عدالتی، انتظامی، سیاسی، قانونی اور معاشی نظام اپنی افادیت کھورہا ہے ۔اصلاحات کے دروازے بند کرکے ہم روایتی اور فرسودہ یا ذاتیات پر مبنی مفادات اور خیالات کی مدد سے نظام چلانا چاہتے ہیں۔یہ تجربہ دنیا میں بھی ناکام ہوا ہے اور ہمارے پاس بھی جاری یہ تجربہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکامی کا شکار ہے۔ یہ نظام ایک مخصوص طبقات کے مفادات کو تحفظ دیتا ہے اور یہ ہی ہماری ضرورت ہے ۔دائروں کا یہ قومی سفر جاری ہے۔
کاش ہمارا حکمران طبقہ یہ سمجھے کہ اب یہ نظام ایسے نہیں چل سکے گا جیسے اس کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی دشمنیوں، سیاسی انتقام اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کا سیاست، جمہوریت کے مقابلے میں اپنے ہی خاندان کی اجارہ داری کا نظام اپنی اہمیت کھورہا ہے۔ مسئلہ افراد یا سیاسی شخصیات یا قیادت یا جماعتوں کا نہیں بلکہ ہماری بڑی ترجیح ریاست اور اس سے جڑے قومی مفادات پر مبنی ہونی چاہیے۔
لیکن ایسی مثبت سوچ کہاں سے لائی جائے اور کیونکر ہمارا حکمران طبقہ وہ سب کچھ سوچے جو آج ہماری ضرورت بنتا ہے۔سیاسی محاذ پر مصنوعی طریقوں یا سیاسی انجینئرنگ کی بنیاد پر چلنے والا نظام کسی کو سامنے لانے اور کسی کو پیچھے دھکیلنے میں تو معاون ثابت ہوسکتا ہے مگر اس سے ہم اپنے ریاستی محاذ پر سیاسی اور معاشی ساکھ قائم نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں تسلسل کے ساتھ جمہوری نظام کو چلانا ہے اور بار بار کے تجربات یا ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنے کی پالیسی اختیار کریں تاکہ ہم مجموعی طور پر قومی ترقی کے دھارے کو آگے بڑھا سکیں ۔
قومی ترقی کے دائرے کا سفر کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا۔ سب کو مل کر بیٹھنا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف موجود نفرت یا تعصب کے عمل کو ختم کر کے کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہے ۔ آئین اور قانون سمیت جمہوریت کی بالادستی کو بنیادی منزل بنالیں اور اس میں طاقت ور طبقات کے مقابلے میں عام آدمی کے مفادات کو تقویت دیں تو ہم مستقبل کے تناظر میں قومی ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کرسکتے ہیں ۔