عید قربان

ذوالحجہ عظمت و فضیلت والا مہینہ ہے اس کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں


[email protected]

الحمد للہ ! لاکھوں فرزندان توحید نے فریضہ حج ادا کرلیا ہے۔ گزشتہ روز سعودی عرب، خلیج سمیت اور کئی ممالک میں عید الضحٰی منائی گئی، حجاج کرام نے نماز عید کے بعد سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے اللہ رب العزت کے حضور جانوروں کی قربانیاں پیش کیں۔

پاکستان میں آج عید منائی جا رہی ہے۔ روئے زمین پر جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہ سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قربانی کا اہتمام کررہے ہیں، ہر طرف جانوروں کی گردنوں پر چھری رکھتے ہوئے اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ کیا روح پروراور ایمان افروز مناظر ہیں۔

ذوالحجہ عظمت و فضیلت والا مہینہ ہے اس کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں، بعض مفسرین نے قرآنِ کریم کی سورہ فجر کی آیت کریمہ ''ولیالٍ عشر''کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔

اس سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں کی عبادت کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، چاہے یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا قیام اللیل کی صورت میں یا روزوں کی صورت میں۔ علماء احادیثِ مبارکہ کا حوالہ دے کر بیان کرتے ہیں کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ 9''ذوالحجہ''یعنی حج کے دن کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

حج کا اہم رکن ''وقوفِ عرفہ'' ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہٰذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا'' کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔'' طبرانی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرہ ذو الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں۔

لہٰذا، تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو۔'' ان ایام میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، تکبیرِ تشریق کے کلمات ہر مسلمان کے زبان پر ہونے چاہیے اور ان کا اقرار دل میں ہونا چاہیے اَللہ اَکبَر، اَللہ اَکبَر لَا اِلٰہ الا اللہ وَاللہ اَکبَر اللہ اَکبَر وَلِلہِ الحَمد۔

ذوالحجہ کی دس تاریخ کو مسلمان عید الضحیٰ روایتی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، نماز عید کے بعد قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کا عمل اگرچہ ہر امت کے لیے رہا ہے، جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حج میں ارشاد فرمایا ہے کہ ''اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کر دی تھی تاکہ اللہ نے جو چارپائے انھیں دیے ہیں۔

ان پر اللہ کا نام یاد کیا کریں، پھر تم سب کا معبود تو ایک اللہ ہی ہے پس اس کے فرمانبردار رہو، اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔'' حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے اور اسی وقت سے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی، چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضورِ اکرم ﷺ کی اتباع میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو قیامت تک جاری رہے گی۔

اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال ہر وقت اور ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ ہمارے ہاں مغرب سے متاثر یا مغرب پرست ایک طبقہ اسلام اور شعائر اسلام پر تنقید کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، جب جب ہر سال عید قربان آتی ہے ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، انھیں جانوروں کے حقوق یاد آجاتے ہیں اور پھر یہ قربانی جیسی عبادت کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے ہیں۔ علمائے حق اور راسخ العقیدہ مسلمانوں نے ہمیشہ اس گروہ کا مقابلہ کیا ہے اور قیامت تک کریں گے انھیں یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام کسی مولوی، پیر مفسر یا محدث کی مرضی کا نام نہیں بلکہ اسلام صرف اور صرف اللہ و رسول کے احکامات کا نام ہے۔

رسول مقبول خاتم النبیین حضرت محمد مجتبی ﷺ نے مدینہ میں دس سال گزارے اور ہر سال آپﷺ نے قربانی کی حتیٰ کہ حجۃ الوداع کے موقع آپ نے سو اونٹوں کی قربانی دی۔ آپ ﷺ نے ان دس سالوں میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اس سال ہم قربانیاں نہیں کریں گے بلکہ قربانی کا پیسہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی پر خرچ کریں گے۔ یا غریبوں اور مسکینوں کی مدد کریںگے۔

اگر قربانی کے جانور ذبح کرنے کے بجائے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی یا غربا اور مسکین پر پیسہ خرچ کرنا قربانی سے افضل یا نعم البدل ہوتا تو نبی کریم ﷺ ضرور اس کا حکم دیتے مگر آپ نے تو ہر سال جانوروں کی قربانی دی اور شادی کی استطاعت نہ رکھنے والوں سے فرمایا:

''اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کر لے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، اس لیے کہ یہ روزہ اس کے لیے( گناہ سے بچنے کی) ڈھال ثابت ہو گا۔'' ( صحیح البخاری :5066)

جوں جوں قربانی کے ایام قریب آئیں گے، غریبوں کے بہت سے خیرخواہ ( لبرل ) اپنے بلوں سے نکلنا شروع ہو جائیں گے، ان کا مقصد غریبوں کی حمایت نہیں بلکہ شعائر اسلام کی تحقیر ہوتا ہے، ان کے دلوں میں شعائر اسلام کا بغض اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو سمجھانے کے بجائے ہم مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائیں کہ قربانی کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم اور مستقل عبادت ہے۔

کسی بھی نیک کام کو مستقل عبادت کے قائم مقام نہیں بنایا جاسکتا۔ جہاں تک جانوروں کی قربانی کے بجائے غریبوں کو پیسے تقسیم کرنے کی بات ہے تو یہ بات یاد رکھیں اسلام نے جتنا غریبوں کا خیال رکھا ہے اس کی کوئی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی بلکہ انسانیت کو غریبوں اور کمزوروں کے درد کا احساس شریعتِ اسلامیہ نے ہی سب سے پہلے دلایا ہے۔

غرباء ومساکین کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے شریعت اسلامیہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اپنے نبی اکرم ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسا کہ ساری انسانیت کے نبی حضورِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ قربانی کرتے وقت ان باتوں کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔

1۔ قربانی صرف مُسنہ یعنی دوندے جانور کی ہی جائز ہے اور اگر تنگی کی وجہ سے دوندا نہ مل سکے تو پھر بھیڑ (دنبے) کا جذعہ (ایک سال کے دنبے) کی قربانی جائز ہے۔ ( صحیح مسلم: 1963)

تنگی سے مراد صرف یہ ہے کہ مارکیٹ اور منڈی میں پوری کوشش اور تلاش کے باوجود دوندا جانور نہ مل سکے۔

2۔ حدیث سے ثابت ہے کہ چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے ایک واضح طور پر کانا جانور، دو واضح طور پر بیمار، تین واضح طور پر لنگڑا، چار بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔ ( سنن ابی داود: 2802 وسندہ صحیح)

3)۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا''ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔'' (سنن ترمذی: 1504، وقال: حسن صحیح)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا: (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔ (سنن ترمذی: 1503، وقال: حسن صحیح)

اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہذب 8/ 404)

امام خطابی رحمہ اللہ (متوفی 388 ھ) نے فرمایا: اس حدیث (جو فقرہ نمبر 2 میں گزر چکی ہے) میں یہ دلیل ہے کہ قربانی (والے جانور) میں معمولی نقص معاف ہے۔ (معالم السنن 2/ 199)

اللہ کریم اپنی راہ میں کیے جانے والی ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔( آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔