تقسیم افغانستان کے منصوبے
اطلاعات کے مطابق امریکا طالبان کو رعایت دیکر افغانستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا خواہاں بھی ہے
افغانستان میں 1793ء سے آج تک انگریزوں نے آٹھ ، روس نے ایک جب کہ امریکا نے چار حکمران بنا ڈالے۔ امیر عبدالرحمان نے انگریزوں سے وفاداری اور دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے انگریزمخالف دشمنوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے، جس کی مثال نہیں ملتی ۔ نادرشاہ اور عبدالرحمان خان کے بدترین مخالفوں میں اتفاق سے قبیلہ غلزئی اور ہزارہ قوم تھی ۔ اگر غازی ایوب خان حکمران ہوتا تو Fire in Afghanistan لکھنے کی نوبت نہ آتی اور یقینا آج افغانستان کی تاریخ اور جغرافیہ مختلف بلکہ بہتر ہوتے اور معاہدہ گندمک ، نہ ڈیورنڈ لائن کے قضیے ہوتے۔
1842ء پہلی افغان انگریز جنگ غازی وزیر اکبر خان محمد زئی 1880 اور دوسری انگریز افغان جنگ کے دوران غیر تربیت یافتہ کم تعداد افغانوں نے ٹوٹے پھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تعداد میں کئی گنا زیادہ انگریز فوج کو عبرتناک شکستیں دیں۔ 32سالہ نوجوان اکبر خان اور پچیس سالہ ایوب خان خان پیشہ ور اور اعلی تربیت یافتہ نہیں تھے ۔ مندرجہ بالا جنگوں میں بہادری کا پلہ ہتھیار پر بھاری رہا۔
افغانستان اور برصغیر کا تناسب ایک اور 200ہے اس کے باوجود 1757ء سے 1947تک انگریز جو بر صغیر کے حکمران رہے مسلسل اور متعدد کوششوں کے باوجود افغانوں کو تابع نہ کرسکے اور نہ ہی برصغیر کی طرح حکومت کرسکے۔لیکن اپنی ریشہ دوانیوں ، خانہ جنگیوں اور سازشوں سے افغانستان میں مداخلت کرنے سے آج تک باز نہیں آئے۔21مئی 1879ء معاہدہ گندمک کے تحت سبی تک لارڈ سنڈیمن نے سیوستان کو بلوچستان کا نام دیا ۔
12نومبر 1893ء کو ڈیورنڈ لائن کی غیر فطری افغان انگریز حد بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کابل تک رسائی کے لیے ہنری ڈیونرنڈ نے نہایت کثیر التعداد فوج کے استعمال کے لیے سندھ اور بلوچستان ہی کی گذر گاہ استعمال کی تھی ، کابل کو گھیرے میں لینے اور کابل میں موجود انگریزی فوج نے اپنے پٹھو حکمران امیرعبدا لرحمان کو اس غیر فطری عمل کے لیے مجبور کیا ، سوات چترال،باجوڑ، دیربونیر وغیرہ افغانستان سے الگ کر لیے گئے۔
1901 میں ڈیورنڈ لائن اور چند دیگر علاقوں کو ملا کر ناقابل فہم بے جوڑ اور بے معنی نام دیکر شمال مغربی سرحدی صوبہ بنا کر افغانوں یا پشتونوں کو قومیت کی مناسبت سے نام دینا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ان تواریخ کے حقائق کا مقصد یہی ظاہر کرنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن اور معاہدہ گندمک کے معاہدے افغان حکمرانوں نے اپنے وقت میں غدار وطن کے ہاتھوں کرکے افغانستان کی وحدت کو تقسیم کرنے کے لیے کیے ، افغانستان پر بہ ظاہر کسی بیرونی جارح نے حکومت نہیں کی لیکن 1799ء سے لے کر آج تک افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی پالیسیوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں غیر ملکیوں کی حکمرانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
غدار وطن شاہ شجاع ، امیر عبدالرحمان سے، روس کے خلاف امریکیوں سے ملکر جنگ ، اور اب امریکیوں کی پٹھو حکومت کو یہ کہہ کر حقائق نظر انداز نہیںکیا جاسکتا کہ افغانستان پر کسی بیرونی جارح نے حکومت نہیں رہی۔اب امریکا اپنی زمینی ، اخلاقی شکست کے بعد افغانستان جانے سے قبل وہاں کی عوام کو منقسم کرنا چاہتا ہے۔طالبان اور مزاحمت کاروں کو بھی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت اور تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے سیاسی دفتر کا قیام بھی مستقبل کے افغانستان کے نئے خدوخال کو بتدریج واضح کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق امریکا طالبان کو رعایت دیکر افغانستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا خواہاں بھی ہے اور یہی تجویز منظر عام پر لائی جا رہی ہے کہ طالبان شمالی اتحاد کے علاقوں سے دست برداری اختیار کر لیں اور پشتون علاقوں میں طالبان، سیاسی بنیادوں پر صدارتی الیکشن میں حصہ لے کر معتدل افراد کو حکومت کا حصہ بنائیں۔ موجودہ افغانستان میں مختلف اقوام کی آبادیوں کا تناسب پشتون ساٹھ فیصد، تاجک بیس فیصد ، اُزبک اور خرکمن دس فیصد، ہزارہ پانچ فیصد اور بلوچ دو فیصد ہے۔بنیادی طور پر قبائل کے لحاظ سے موجودہ افغانستان کو مشرقی افغانستان اور مغربی افغانستان میں تقسیم کے منصوبے منظر عام پر آرہے ہیں۔
لیکن امریکا کی جانب سے انخلا سے قبل افغان امن کونسل کے پاکستان میں مذاکرات کے عمل میں ایک بین الاقوامی علما ء کانفرنس بلانے کی تجویز دی گئی تھی جس کا مقصد طالبان حملوں کے خلاف معتبر علماء سے فتوے حاصل کرنا تھا ۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے جاری ایک بیان میں کانفرنس کو سراسر امریکی ایما ء پر محض گیارہ سالہ جہاد کے بعد افغان جہاد کے متعلق علماء کے نقطہ نظر کو معلوم کرنا اور اور امریکا کو اپنی ناکامی کے دباؤ کے باعث اس خواہش کا اظہار کہ وہ مذہبی رہنمائوں سے توقع رکھتے ہیں کہ اسے ''نجات دلائی جائے'' لیکن تحریک طالبان کی جانب سے دنیا بھر کے مدارس اور ممالک خصوصا افغانستان ، سعودی عرب ،پاکستان ، ہندوستان ،دارالعلوم دیوبند اور جامعۃ الازہر کے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے منع کیا گیا ۔
2014ء امریکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن جیسے جیسے قریب آرہی افغان قضیے کے حل کی کوششوں کو تیزکیا جارہا ہے ، کہیں دوحہ مذاکرات تو کہیں پیرس ، توکہیں قطر تو کہیں ترکی کے بعد اب قندھار میں طالبان کے دفاتر کھولنے کے مشورے جاری رہے۔ امریکا جانے سے قبل مستقبل کے افغانستان کے حوالے سے جہاں پاکستان نے اپنے فوجی آپریشنل ترجیحات کو تبدیل کیا ہے تو دوسری جانب قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے بعض شہری علاقوں میں قائم امن لشکروں کا کردار بھی تبدیل کیا جا رہا ہے جس کی ابتدا پشاور کے مضافات میںبڈھ پیر کے علاقے سے شروع کرکے بڈھ پیر امن لشکر کے سربراہ سے مسلح گارڈز واپس لے لیے گئے ہیں۔
2007 کے بعد سے اب امن لشکر کے کردار میں اس تبدیلی کو امریکا کی جانب سے افغانستان میں امن کے لیے پانچ مراحل پر مبنی منصوبے کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔افغانستان کی تاریخی حیثیت کو مزید تاراج کرنے کے بجائے امریکا امن کے نام پر جنگ اور تقسیم کرو اور لڑائو کی پالیسی ختم کرکے افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام پر چھوڑ کر چلا جائے تو یہ خطے کے امن کے لیے اہم اقدام ہوگا۔منقسم افغانستان کسی بھی طور مفاد عامہ میں نہیں بلکہ مزید انتشار کا سبب بن سکتا ہے جو کسی طور مناسب اقدام تصور نہیں کیا جائے گا۔