تحفظ پاکستان آرڈیننس تحفظات و خدشات
بد قسمتی سے وطن عزیز میں اس حوالے سے صورت حال کبھی اطمینان بخش نہیں رہی ۔۔۔
آپ دنیا کے مہذب و با شعور ممالک کی جمہوری حکومتوں کے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ملک میں امن، ترقی وخوشحالی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور فیصلوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حکمراں طبقے کے اکابرین باہمی مشاورت سے ایسی ہمہ گیر اور جامع پالیسیاں، منصوبے اور قوانین بناتے ہیں جو نہ صرف عوام کے منتخب نمایندوں کے اجتماعی شعور کا آئینہ دار ہوتے ہیں بلکہ ان کے نفاذ اور عمل پذیر ہونے سے عوام الناس کو سماجی، معاشی، معاشرتی، عدالتی غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں سہولتیں و آسانیاں میسر آتی ہیں اور لوگوں کو بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی اور اس تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے وطن عزیز میں اس حوالے سے صورت حال کبھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ 65 سالوں کے دوران بر سر اقتدار آنے والوں حکمران طبقوں نے عوام کی فلاح و بہبود سے کہیں زیادہ اپنے ذاتی، خاندانی،گروہی، سیاسی اور جماعتی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی اور ایسے اقدامات اٹھانے اور ایسی پالیسیاں اور قوانین بنانے کی کوشش کی گئی جن سے عوام کی مشکلات میں بجائے کمی کے مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ قوم کے ہر فرد تک انصاف کی بلا تفریق فراہمی سے ایک صحت مند اور عادلانہ معاشرے کی تعمیر میں مدد ملتی ہے جب کہ نا انصافی، حق تلفی، ظلم و زیادتی اور آئین سے متصادم جبری طور پر بنائے گئے سخت گیر قوانین کے عوام پر مسلط کرنے سے نقصانات ہی ہوتے ہیں۔
تنازعات جنم لیتے ہیں اور قومی سطح پر نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کیوں کہ آئین ہی وہ مقدس دستاویز ہے جس پر اس کی روح کے مطابق عمل در آمد سے ملکی معاملات اور امور سلطنت کو احسن طریقے سے چلایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے ارباب حل و عقد نے آئین و قانون کو گھر کی ملازمہ اور بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے۔
ہر ایک ملک کے آئین کی طرح پاکستان کے دستور میں بھی عوام کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اب یہ حکمرانوں کی آئینی ذمے داری ہے کہ ملک کے 18 کروڑ عوام کو ان کے بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی اور اس کے تحفظ کو یقینی بنائیں اس حوالے سے آرٹیکل 10 اہمیت کا حامل ہے جس کے تحت لوگوں کو شہری آزادی کا آئینی حق دیا گیا ہے تاکہ ملک کا ہر فرد آزادانہ ماحول میں بلا کسی خوف و خطرے کے اپنے گھر کے اندر اور باہر ہر جگہ اپنے معمولات زندگی پرسکون انداز سے انجام دے سکے لیکن مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت ''تحفظ پاکستان آرڈیننس'' کے نام پر عوام کے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کو ختم کرکے اس کی شہری آزادی کے آئینی حق کو سلب کرنے پر کمر بستہ ہے۔
آپ گزشتہ چند ہفتوں کے اخبارات کی خبریں اٹھاکر دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا کہ ن لیگ کی حکومت تحفظ پاکستان بل کو قومی اسمبلی و سینیٹ سے پاس کرنے کے ضمن میں کس قدر عجلت پسندی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ حالانکہ ملک کے ممتاز ترین اور قد آور آئینی و قانونی ماہرین، مبصرین، تجزیہ نگار اور اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماء ، قائدین سب کے سب ''تحفظ پاکستان آرڈیننس'' کے حوالے سے اپنے شدید ترین تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ جو تیزی سے سیاسی بلوغت کی سمت بڑھ رہے ہیں نے بڑی معنی خیز بات کہی کہ ''اگر یہ بل پاس ہوجاتا ہے تو ایک دن وزیراعظم کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے'' جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم تحفظ پاکستان بل کے نام پر مسلط کیے جانے والے کالے قانون کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی۔
آئینی و قانونی ماہرین کی آرا بھی سن لیجیے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضیٰ کا کہناہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس ملکی قانون، آئین اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔ ملکی آئین کے تحت جو نارمل قوانین موجود ہیں ان پر عمل در آمد کرایاجائے، انھوں نے مزید کہاکہ آئین کے تحت کوئی قانون کمزور نہیں ہوتا بلکہ اصل کمزوری حکومت کی ہے جو قوانین پر عمل در آمد نہیں کرا سکتی، ممتاز قانون دان عابد حسین منٹو نے اہم سوالات اٹھائے ہیں ان کے بقول جو قوانین پہلے سے موجود ہیں کیا ان پر عمل در آمد ہو رہا ہے؟ کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام کررہی ہیں کیا انھیں کسی نے روکا؟ فرقہ واریت کو کچلنے کے لیے کچھ ہوا؟ نئے قوانین کس لیے؟ عابد منٹو صاحب نے بجا طور پر کہاکہ اس بل کو بناتے وقت مشاورت نہیں کی گئی یہ بنیادی آئینی حقوق سے متصادم ہے اور اگر منظور ہو بھی گیا تو عدالت میں چیلنج ہوجائے گا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور معروف دانشور آئی ا ے رحمان صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا بھر میں مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اس وقت تک معصوم سمجھا جائے گا جب تک اس کا جرم ثابت نہیں ہوجاتا اس بل میں مگر ایسا نہیں ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ گمشدہ افراد کے سلسلے میں جو زیادتیاں ہورہی ہیں ان پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ قانون لایا جا رہاہے۔ آئی اے رحمان نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بلوچستان اور سندھ میں لاپتہ افراد کے لیے اس قانون کا سہارا لیا جائے گا۔ انھوں نے درست کہاکہ جمہوری ملکوں میں حکومت مشاورت سے سب کے تحفظات دور کرتی ہے لیکن ادھر ایسا نہیں بلکہ حکومت ہر حال میں اس بل کو قومی اسمبلی کے بعد اب سینیٹ سے منظور کرانے پر تلی ہوئی ہے۔
تحفظ پاکستان بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی بازگشت اعلیٰ عدالتی حلقوں میں بھی سنائی دینے کے باعث تحفظات کا اظہار سامنے آرہا ہے اگلے دنوں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ایک فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران یہ فرمایا ہے کہ اگر اس ملک میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے والی قانون سازی ہوئی تو سپریم کورٹ اسے برداشت نہیں کرے گی۔ کیوں کہ قومی سلامتی کے نام پر کسی بھی عام شہری کی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مذکورہ خدشات و تحفظات سب کے سب تحفظ پاکستان بل کے غیر آئینی و نا مناسب منصوبے کی عکاسی کرتے ہیں لیکن حکومت اس بل پر سوچ بچار کرنے اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں سے مشاورت کرنے پر آمادہ نہیں اگلے دنوں قومی اسمبلی میں اس بل کی منظوری دے دی گئی تو اپوزیشن اراکین اسمبلی نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر کے سامنے پھینک دیں لیکن حکومت پر کچھ اثر نہیں ہوا اب یہ بل سینیٹ میں پیش ہوگیا ہے جہاں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں۔ لہٰذا کوشش یہ کی جارہی ہے کہ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلاکر بل کی منظوری لے لی جائے، سینیٹ میں پی پی پی کے ممتاز سینیٹر جناب فرحت اﷲ بابر نے ''تحفظ پاکستان آرڈیننس'' کے حوالے سے اہم نکات اٹھائے ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
چوں کہ یہ آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور عالمی رائے عامہ اسے مختلف عالمی معاہدوں سے انحراف تصور کرے گی۔ جن کے مطابق تشدد کے خلاف ''کنونشن'' اور شہری، سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ''کنونشن'' شامل ہے لہٰذا پی پی پی نے اس بل کی مخالفت کا مطالبہ کیا ہے، فرحت اﷲ بابر صاحب نے بجا طور پر کہا کہ اس قانون کی منظوری سے محض شک کی بنیادی پر کسی بھی شہری کو گولی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اٹھاکر لے جایا جا سکتا ہے، وجہ بتائے بغیر زیر حراست رکھا جا سکتا ہے، کسی بھی شہری کے گھر میں سرچ وارنٹ کے بغیر داخل ہوا جا سکتاہے۔
انھوں نے حالات کے تناظر میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس آرڈیننس کے تحت انتشار پھیلے گا، فرحت اﷲ بابر نے یہ تجویز دی کہ چوں کہ تشدد کو روکنے کے لیے پہلے ہی سخت قوانین موجود ہیں لہٰذا حکومت خلوص نیت کے ساتھ ان قوانین پر عمل در آمد کو یقینی بنائے، نئے قوانین کی قطعاً ضرورت نہیں، صائب الرائے حلقوں کی متذکرہ آرا کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پر موجود تحفظات وخدشات کو دور کیاجائے عوام کے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا حکمرانوں کے فرض منصبی کا آئینی تقاضا ہے۔