گوشت اہم ہے
جتنی آسانیاں ہمارے مذہب میں ہیں، اتنی شاید ہی دنیا کے کسی اور مذہب میں ہوں مگر مذہب کو آسان لے لینا بھی درست نہیں ہے
''آپ کے پاس تو اب اس لفافے میں جگہ ہی نہیں ہے گوشت رکھنے کی اور اتنے چھوٹے سے تو ہیں آپ، اتنا گوشت کس طرح اٹھائیں گے اور کس طرح اپنے ساتھ لے کر جائیں گے؟''
عید قربان کے دن، گوشت مانگنے کے لیے آنے والے اس نو دس سال کے لڑکے سے میں نے سوال کیا۔''کیا آپ مجھے کوئی بڑا اور مضبوط تھیلا دے سکتی ہیں اور کچھ اور گوشت بھی، اگر بکرے کا ہو جائے تو اچھا ہے، ابھی تک سارا بڑا گوشت ہی ملا ہے، لگتا ہے کہ اس بار بکرے کی قربانی کسی نے کی ہی نہیں۔''
اس نے میرے سوال کے نصف حصے کے جواب میں الٹا درخواست کر دی۔ کسی حد تک یہ حقیقت بھی ہے کہ امسال بکروں کا نرخ اتنا اونچا تھا کہ عام آدمی سے ایک طبقہ اوپر والوں کے لیے بھی بکرے کی قربانی مشکل ہو گئی۔ قربانی سنت ابراہیمی ہے اور ہر مسلمان کا جی چاہتا ہے کہ اس کی تقلید کرے۔
یہ اور بات ہے کہ جنھیں استطاعت ہے وہ بڑھ چڑھ کر اور شو بازی کے ساتھ ایک نہیں بلکہ کئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، اپنے مہنگے جانوروں کی نمائش بھی کرتے ہیں اور اپنی ایک سے زائد قربانیوں کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں۔ لوگوں کے مریل جانوروںکا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے دل دکھاتے ہیں۔
''تھیلا تو میں دے دوں گی مگر آپ اتنا وزن اٹھاؤ گے کیسے؟'' میںنے سوال کیا۔''اگر آپ تھیلا دے دیں گی تو میں اٹھا لوں گا۔'' اس نے عزم سے کہا۔ میں نے اس کا مطالبہ پورا تو کر دیا مگر ترس آرہا تھا کہ کس مشقت سے گوشت جمع کر کے وہ اپنے گھر تک لے کر جائے گا۔ ''ہم سارا سال اس عید کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ ہمیں صرف ان دنوں میں ہی گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے۔ ہم گھر کے اتنے سارے لوگ ہیں، کم گوشت ہو گا تو پیٹ بھر کر کھانے کو بھی نہیں ملے گا۔''
میری آنکھیں نم ہو گئیں، دل چاہا کہ اس سے کہوں کہ وہ ہر ماہ آ جایا کرے اور میں اسے گوشت خرید کر دے دیا کروں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم زکوۃ کے پیسوں سے ایسا کر سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کی نظر میں گوشت ایک ناقابل رسائی چیز ہے، یہ لوگ کھانے کو ترستے بھی ہیں بلکہ یقینا گوشت کے لحمیات اہم اور ضروری بھی ہیں۔ میں سوچتی ہی رہ گئی اور وہ اپنا تھیلا سمیٹ کر خوشی خوشی روانہ بھی ہو گیا۔ہم زکوۃ دیتے وقت ہمیشہ سوچتے ہیں کہ زکوۃ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نقد رقم دے دی جائے، غریب یا سفید پوش بندے کی سو ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔
اگر ہم اسے رقم دیں اور کہیں کہ اپنے لیے جوتے یا کپڑے لے لینا، دوائیں لے لینا، وٹامن لے لینا، گوشت اور پھل کھا لینا... ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ غریب ایسا کچھ بھی کر سکے کیونکہ اس کے گھر کی سو ایسی ضرورتیں ہو گی جو کہ منہ پھاڑے بیٹھی ہوں گی اور ہماری دی گئی رقم انھی کی مد میں چلی جائے گی۔ بہتر ہے کہ ہم کسی کو رقم دینا چاہیں تو دیں مگر کبھی کبھار اپنی زکوۃ کی رقم سے دس بیس کلو گوشت خرید کر اگر دس بیس گھروں میں دے دیں جہاں فقط عید کے عید گوشت پکتا ہے، پھل دے دیں جن گھروں میں گلا سڑا پھل بھی کھانے کی سکت نہیں ہوتی۔
دوائیں، جوتے اور کپڑے خرید کر بانٹ دیں، انھیں اس سے بھی خوشی ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے قربانی کے لیے حلال جانوروں کا انتخاب کیا اور بڑے جانوروں میں کئی کئی لوگوں کے لیے حصے مقرر کر دیے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ اکیلا جانور مہنگا ہوتا ہے، اگرسات لوگ مل کر ایک گائے یا گیارہ لوگ مل کر ایک اونٹ قربانی کے لیے خرید لیں تو اس سے بار بٹ جاتا ہے۔
ہر عبادت کی روح یہ ہے کہ آپ پر بوجھ نہ پڑے۔ جب بھی کسی عبادت کی فرضیت کا حکم آتا ہے، ماسوائے نماز کے کہ جو ہر حال میں فرض ہے، حتی کہ آپ کھڑے ہونا تو درکنار بیٹھ بھی نہ سکتے ہوں، تکلیف میں ہوں یا آرام کی حالت میں، سفر میںیا حضر میں۔ مگر باقی عبادات کے لیے سہولت میسر ہے، حج، زکوۃ کے لیے آپ کا صاحب نصاب ہونا ضروری ہے، ساڑھے سات تولے سونا یا باون تولے چاندی کے برابر اگر آپ کی حیثیت نہیں تو آپ پر زکوۃ فرض نہیں۔ رقم نہیں جمع ہو پاتی تو حج کرنا لازم نہیں، مانگ تانگ کر اور قرضے اٹھا کر حج پر جانے کی اجازت نہیں۔
روزے میں بھی کئی حالتوں میں چھوٹ ہے اور اس کے عوض آپ کی حیثیت کے مطابق فدیہ دینے کا حکم ہے۔ گندم، جو اور چاول سے کر کشمش، کھجور اور کئی میوہ جات ہیں جن کی قیمت، بطور فدیہ ہر روزے کے لیے دی جاسکتی ہے اور اس کا تعین آپ کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے کہ آپ گندم کی قیمت کو بطور فدیہ مقرر کریں، کھجور یاکشمش کو۔ اگر کوئی غریب ہے مگر کسی بیماری کے باعث روزے نہیں رکھ سکتا تو اس کے لیے فدیہ مقرر ہے۔
جتنی آسانیاں ہمارے مذہب میں ہیں، اتنی شاید ہی دنیا کے کسی اور مذہب میں ہوں مگر مذہب کو آسان لے لینا بھی درست نہیں ہے۔ مذہب کی مقرر کردہ ہر عبادت کی روح کو سمجھیں اور اپنے ارد گرد اللہ تعالی کی مخلوق کا خیال، کسی مذہب اور ملت کی بنیاد کے بغیر کریں، اس کی جواب دہی ہم سب کو کرنا ہو گی۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔