سفر
سوچا بھی نہ تھا کہ جدید ترقی کے اس دور میں ان کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے گا
یونانی ساحل کے قریب ڈوب جانے والی کشتی کے حادثے میں انسانی جانوں کی ہلاکت نے دنیا کو ہلا کر رکھا ہو یا نہ ہو، البتہ ان ماؤں کی دل کی دنیا ضرور ویران کردی جنھوں نے اپنے لخت جگر سے نجانے کیسے کیسے سنہرے خواب وابستہ کر رکھے تھے۔
ان سنہرے خوابوں کی تعبیر اندھیری کشتی کے خوف ناک مہیب سائے جنھوں نے ان جوانوں کو موت کے جنگل کا مسافر بنا ڈالا۔ کہا جا رہا ہے کہ اب تک زندہ بچ جانے والے ایک سو چار لوگوں میں بارہ پاکستانی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق حادثے میں 78 افراد ہلاک جب کہ پانچ سو کے قریب لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایک اہم سرغنہ سمیت 14 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جب کہ یونانی اخبار کی ایک خبر کے مطابق 9 مشتبہ اسمگلروں کو عدالت میں پیش کردیا گیا ہے اور انھیں اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب عدالت میں پیش کرنا ہے۔
یونان کے جنوبی خطے پیلو یونیس کے قریب اس کشتی میں سات سو پچاس افراد سوار تھے جن میں کثیر تعداد پاکستانیوں اور کشمیریوں کی تھی۔ اس بار ایک ایجنٹ کا نام سامنے آیا ہے جو معصوم لوگوں کو یورپ لے جانے کا کہہ کر لاکھوں روپے بٹور کر یعنی فی کس 23 لاکھ روپے کے عوض موت۔
یہ سننے میں بڑی عجیب سی بات لگتی ہے لیکن حقیقت اس سے بھی زیادہ درد ناک ہے۔ گرفتاریاں پاکستان سے لے کر یونان تک میں کی گئی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حادثے کے بعد چوری چھپے کنٹینرز، کشتیوں سے یورپ جانے کے واقعات و حادثات میں کمی آ سکتی ہے تو جواب نفی میں ہے، کیوں کہ یہ سلسلہ تو ماضی سے جاری ہے اور امید ہے کہ آگے بھی جاری رہے گا۔
ابھی کچھ عرصہ قبل ہی سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو موصول ہوئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ حادثہ آج صبح ہی پیش آیا ہے۔ ویڈیو بنانے والا مقام، وقت، دن اور سال سب بیان کر رہا تھا اور گزارش کر رہا تھا کہ یہ ویڈیو شیئر کی جائے تاکہ ان بے چارے نوجوانوں کے والدین کو پتا چلے یہ نوجوان جو کسی کنٹینر میں سوار تھے خدا جانے اس کنٹینر کو کیا حادثہ پیش آیا تھا، اس تمام تفصیل کے علاوہ صرف یہی گزارش کی جا رہی تھی کہ آپ لوگ ان بے چاروں کو دیکھ کر پہچان لیں تاکہ جلد از جلد ان کے گھر والوں کو ان کی حالت کا پتا چلے وہ ایک دل ہلا دینے والی ویڈیو تھی جسے فوری طور پر ادھر اُدھر شیئر تو کردی گئی تھی لیکن اس واقعے کی خبر اخبارات و نیوز چینلز پر نہ دیکھی نہ سنی۔
بات دراصل یہ ہے کہ آئے دن اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ہو چکے ہیں لیکن اس کا سدباب کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ درحقیقت یورپ کی رنگ بہ رنگی تصاویر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہاں درختوں پر ڈالرز لٹکتے ہیں، ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں جسے بڑے مزے سے انسان اپنی جیبوں میں بھر سکتا ہے محنت کا صلہ اپنے ملک میں نہیں بلکہ بیرون ملک ہی مل سکتا ہے۔
یہ ایک عام تاثر ہے جن تمام بھولے بھالے، معصوم پاکستانیوں کے انٹرویوز لیے جائیں جو یورپ جانے کے شوق میں ایجنٹوں کے جال میں الجھے ہیں ان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ اچھے حالات اور اچھے روزگار کی تلاش میں یورپ جانا چاہتے ہیں، اس کے بعد از نتائج کیا ہوں گے اس سے جان بوجھ کر نظریں چرائی جاتی ہیں کیوں کہ آنکھوں پر رنگین چشمے چڑھے ہوتے ہیں۔
''جس وقت آپ سارے بہن بھائی آرام سے اپنے بستروں میں پڑے سو رہے ہوتے ہیں اس وقت صبح کے ساڑھے پانج بجے مجھے کام پر جانا ہوتا ہے، سواریاں اٹھانا ہوتی ہیں، اس وقت سردی کا شدید حال ہوتا ہے۔ گاڑی پر برف کی تہہ جمی ہوتی ہے، بارش ہو تو بھی حال برا ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ باہر ملک جا کر ہم لوگ عیاشیاں کرتے ہیں، یقین جانیے ہم جان توڑ محنت کرتے ہیں لیکن اس کا درد وہی محسوس کرتا ہے جو اس سے گزرا ہو۔''
یہ کہنا تھا ہالینڈ میں ایک کیب چلانے والے کا، کہنے کو تو اس کا کام بہت اچھا چل رہا ہے لیکن محنت بہت کرنا پڑتی ہے اور اس محنت کے بیچ موسم کی سختیاں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ہمارے پاکستان میں مادیت پرستی کا جن سر پر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس دکھائوے کی بہار شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر سالگرہ، عقیقہ، میلاد سے لے کر موت کی تقریبات میں بھی نظر آتی ہے اس پر اگر کوئی ایسا شخص جو بیرون ملک کمائی کرتا ہو اور اس کے گھر کا معاملہ ہو تو ان میں شو شا کے پر لگ جاتے ہیں۔ دوسروں کو اپنی امارت سے متاثر کرنے کا مرض سب سے خطرناک مرض ہے جو بدقسمتی سے ہماری قوم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک شادی کی تقریب میں جانا ہوا تھا، لڑکا دبئی میں کام کرتا ہے، بھئی کیا شان دار ولیمہ کیا انھوں نے، اس شادی ہال کی شان دیکھنے والی تھی، سات آٹھ لاکھ تو اس پر اٹھ گئے ہوں گے، کھانا کیا زبردست تھا، تافتان بھر بھر کے تھے اور سات آٹھ ڈشز تو میں نے خود گنی تھیں اور دہی بڑے چھولے، سلاد، کولڈ ڈرنکس اور میٹھے میں بھی بہت خرچہ، صاف نظر آ رہا تھا اور جب میں نے دیکھا تو حیران رہ گئی۔
ارے بھئی پروفیشنل فوٹو گرافر تھا۔ بھئی بہت ہی مزہ آیا۔ لیکن جب میں نے پوچھا لڑکے کی والدہ سے تو میں تو حیران رہ گئی وہ وہاں رہتی تھیں۔ایک نسبتاً لوئر کلاس علاقے کا نام سن کر وہ ذرا حیران ہوئی تھیں۔ ان کے مطابق اس تقریب میں مہمانوں نے بھی کم و بیش اسی انداز کے جدید فیشن والے کپڑے پہن رکھے تھے جو ٹی وی ڈراموں میں نظر آتے ہیں، رنگ بہ رنگے بال، میک اپ سے جگمگاتے چہرے، کیا فرق تھا ان چہروں اور اعلیٰ طبقے کے افراد میں۔
ٹائی ٹینک کے اجڑے باقیات دیکھنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالرز ادا کر کے ایک آبدوز میں سفر کیا، ایک صدی پہلے اجڑنے والے جس تاریخی جہاز کی باقیات دیکھنے گئے تھے تو سوچا بھی نہ تھا کہ جدید ترقی کے اس دور میں ان کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے گا۔
سفر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اختیار کرتے ہیں، ایک طبقہ اپنے آپ کو غریب، مجبور اور ضرورت مند کہتا ہے تو دوسرا امیر، طاقتور اور بہت سے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن سفر وہی ہے، کوئی چاند پر جانا چاہتا ہے، کوئی بلند و بالا پہاڑوں پر تو کوئی گہرے سمندر میں۔۔۔۔ سمندر جو کسی کا نہ ہوا، اس کی لہریں جس کے حکم سے چلتی ہیں ان سے کون واقف نہیں، حاکم صرف ایک ہی ہے۔ روزگار کے حصول کے لیے اپنی جان کو خطرے میں مت ڈالیے،زندگی ایک نعمت ہے اس کی قدر کریں۔