کشتی سانحہ ذمے دار کون
پاکستانیوں کے علاوہ اس ماہی گیری کشتی پر افغانستان، مصر، فلسطین اور شام کے شہری بھی سوار تھے
لیبیا سے 750 غیر قانونی تارکین وطن کو لے کر یورپی ساحلوں کی طرف روانہ ہونے والا ماہی گیری ٹرالر کو بحر روم میں پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں 300 سے زائد پاکستانی شہری سمندر کی نذر ہوگئے ہیں۔
پاکستانیوں کے علاوہ اس ماہی گیری کشتی پر افغانستان، مصر، فلسطین اور شام کے شہری بھی سوار تھے۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو پیش آنے والا یہ پہلا حادثہ نہیں۔
تمام واقعات کی تفصیلات کا کھوج لگایا جائے جو یونان کے کوسٹ گارڈ اہلکاروں کی جانب سے تارکین وطن سے لدی اس کشتی کی نشاندہی سے لے کر بعدازاں آدھی رات کو کشتی ڈوبنے کے درمیان پیش آئے، لیکن اس کی توقع اس لیے نہ ہونے کے برابر ہے کہ ان لوگوں کے بچ جانے کی نسبت ڈوب جانا یورپی دنیا کے لیے زیادہ اطمینان کا باعث ہو گا۔ یونان کے اہلکاروں پر اُٹھنے والے اعتراضات اپنی جگہ لیکن ایسے المناک واقعات کی تمام تر ذمے داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی مایوس کُن صورتحال کا ذمے دار کون ہے اور پھر یہ کہ لوگوں کو باہر پہنچانے کے غیر قانونی دھندے پر قابو پانا کیوں ناممکن ہے۔ پاکستان تو وہ بدقسمت ملک ہے کہ اس کی خواتین کی قومی ہاکی ٹیم کی کپتان شاہدہ رضا جب اپنے وسائل سے اپنے بیٹے کا علاج کرانے سے لاچار ہوگئیں تو انھوں نے بھی اسی طرح سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔
جس کشتی میں وہ سوار تھیں وہ سمندری چٹانوں کے ساتھ ٹکرا کر غرق ہوگئی اور پاکستان کی یہ قومی کھلاڑی بھی اپنی اُمیدوں، آرزوؤں سمیت سمندر میں ڈوب گئیں۔ کیا کسی کو اس سانحے پر رتی برابر شرمندگی کا احساس ہوا اس واقعے کو یاد کیجیے اور ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کی تفصیلات سے حظِ اٹھائیے۔
اپنی سرکار اور نظام عدل پر پاکستانی عوام کے اعتماد اور انحصار کا یہ عالم ہے کہ انسانی اسمگلروں کے خلاف چند ایک کے سوا کسی نے رپورٹ درج نہیں کرائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھو دینے والوں کو یقین ہے کہ اس سانحے کے اصل ذمے داروں کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی بلکہ حکام اُلٹا انھیں ہی ڈرائیں دھمکائیں گے۔ یہ کسی بھی ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ وہاں کے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد بھی اس قدر مایوسی کا شکار ہیں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بھی یہاں سے فرار ہونے پر آمادہ ہیں۔
ادھر 14 جون کو کشتی کے حادثے سے اگلے روز 15 جون کو یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں حکومت کے خلاف بڑا عوامی مظاہرہ ہوا ۔ سرکاری حکام نے 15جون کے روز انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں 9 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا۔ جنہوں نے عدالت کے روبرو صحت جرم سے انکار کیا۔ جب اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آجائے جس میں بڑی تعداد میں لوگ اجتماعی طور پر ڈوب جائیں تو حکومت کی بے چینی اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ ایسے سانحے میں ان کی ذمے داری کی تحقیقات ہونا ہوتی ہے۔
ابھی چند ہفتے پہلے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے یونان کے کوسٹ گارڈ حکام پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے یونانی ساحل کی جانب آنے والی تارکین وطن کی ایسی ہی ایک کشتی کو واپس سمندر میں دھکیل دیا تھا۔ اب جو حالیہ واقعہ پیش آیا ہے اسے بھی نیویارک ٹائمز میں لگائے جانے والے الزامات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے اور اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کا یہی وطیرہ ہے کہ وہ ایسی حالت میں بھی کشتی کو ساحل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہوں گے جب کشتی پہلے ہی مسائل کا شکار تھی۔
سمندر میں خطرے سے دوچار کشتیوں کے بارے میں خبردار کرنے کے لیے ایک آرگنائزیشن کام کرتی ہے جو ایسی کشتیوں کے درست مقام، (جی پی ایس لوکیشن) کا الارم جاری کرتی ہے۔ اس آرگنائزیشن نے اس حادثے کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ مشکل میں مبتلا بدقسمت کشتی کے بارے میں یونانی کوسٹ گارڈ اور یورپین بارڈر ایجنسی کو اطلاع ای میل کی گئی تھی۔ لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی اور کشتی بالآخر اُلٹ گئی۔ آرگنائزیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ یونانی حکام کشتی میں سوار لوگوں کو خود اپنی موت کا ذمے دار قرار دینے کا سلسلہ بند کریں۔