عید کے بعد
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تین بڑے ستون پارلیمنٹ، عدلیہ اور مقننہ ایک پیج پر ہوںگے
عید بھی گزر گئی، عید سے پہلے کچھ ایسا ہو نا تھا، جو ہو نہ سکا،شاید اب ہونے جارہا ہے!مگر ایک اہم نکتہ جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اب ہم اسی سمت کو جارہے ہیں جو ہم سے 2017میں چھن گئی تھی؟
اس وقت کم از کم پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نظر آرہے ہیں۔ عدلیہ نے بھی جو کچھ کرنا تھا وہ کرد یا ہے۔ اس وقت وہ تمام کیسز زیر سماعت ہیں، جن کے ذریعے ہائبرڈ جمہوری نظام کومتعارف کروایا گیا تھا، مگر جب سے یہ ناکام ہوا ہے اور پرانا نظام بحال ہوا ہے، اب ہائبرڈ نظام کو واپس لانے کا اختیار ان کے پاس نہ رہا وگرنہ چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ اب بھی زندہ ہے۔
ان کو ٹھوکر تب لگتی ہے جب عدلیہ حکم امتناع دینے سے گریز کرتی ہے، آیا کہ سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں کہ نہیں۔اب وہ الجھنوں کا شکار ہیں۔ایسا ہوتے ہوتے اب یہ باقی دو ڈھائی ماہ بھی گذر جائیں گے اور ایسا ہوتے ہوتے عدلیہ،پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ بھی قوی امکان ہے ایک فیصلے پر ہی جا ٹھہریں گے۔
شاید پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ تینوں اہم ستون ایک پیج پر ہوںگے ۔ نو مئی کے واقعے کے ذمے داروں کو فوج نے خود ہی شناخت کیا اور ان کا صفایا بھی کیا۔اس واقعے میں جن سویلینز کا گٹھ جوڑ ان کے ساتھ تھا اب صرف ان کا صفایا باقی ہے۔
چوہدری اعتزاز حسن اور لطیف کھوسہ وکلاء برادری کو آگے کر کے جس تحریک کی بنیاد ڈالنے والے تھے، وہ تحریک شروع ہونے سے قبل ہی دم توڑ چکی ہے، اگر اس کی ابتدا ہوئی بھی تو یہ تحریک کبھی بھی مضبوطی کی اس منزل کو نہیں چھوئے گی، جس طرح سے سال 2007 میں وکلاء برادری کی تحریک شروع ہوئی اور بڑی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اس وکلاء تحر یک کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔
تمام سیاسی قیادت اس تحریک کے ساتھ کھڑی تھی۔تمام جج صاحبان نے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ اس تحریک کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس وکلاء تحریک کو جنرل پرویز کیانی کی حمایت حاصل تھی۔اس وکلاء تحریک کی منزل یہ تھی کہ جنرل مشرف کی آمریت کا خاتمہ کیا جائے اور جمہوریت کی بحالی ہو،مگر یہ و کلاء تحریک جو اب طے کی جارہی ہے ،اس کا ایساکوئی منشور ہی نہیں ، اس کا موقف صرف یہ ہے کہ سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں چلنے چاہئیں ،ہاں اگر دوبارہ ہائبرڈ جمہوری نظام واپس بحال ہواتویہ ممکن نہیں۔
خان صاحب نے اپنی تمام کو ششیں کر ڈالیں،لیکن ان کا سیاسی مستقبل ٹریک پر نہ آ سکا۔ان کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی تو رہے گی مختلف ادوار میں مختلف اشکال میں، کنگز پارٹیز کی طرح مگر خان صاحب کی سیاست پاکستان کی تاریخ میںاختتام کو پہنچی۔
اس موجودہ نظام کی مقبولیت ، اس وقت ایک اور موڑ لے گی جب اگست کے پہلے ہفتے میں انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہو اور نگراں حکومت بنائی جائے اور عام انتخابات اپنے مقررہ وقت یعنی اکتوبر میں کروائے جائیں۔پھر کون بنے گا اس ملک کا وزیر ِاعظم ؟ان انتخابات کے بعد؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیاکسی سیاسی جماعت کو ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہوگی؟ یقینا نہیں۔
ہاں مگر مسلم لیگ نون سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ ہاں مگر کیا مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی کے بغیر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے گی؟ اس دفعہ پیپلز پارٹی کراچی سے بھی آٹھ یا دس نشستیں لینے میں کامیاب ہوگی۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی اور پنجاب میں بھی اور پیپلز پارٹی کی یہ کامیابی مسلم لیگ نون کے لیے دشواریاں پیدا کر سکتی ہے، اگر مسلم لیگ نون نے اپنے ٹکٹ پر ان لوگوں کے خلاف اپنے لوگوں کو مدمقابل کھڑا کیا تو ہو سکتا ہے کہ اس دفعہ سائوتھ پنجاب میں استحکام پارٹی ، بڑی پارٹی بن کر ابھرے۔
پی ٹی آئی بھی بہت سی نشستوں پر کامیاب ٹھہرے گی، اس لیے یہ دیکھنا ہو گا کہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی یا پھر پی ڈی ایم کی اکثریتی پار ٹیاں انتخابی اتحاد بنالیں اس اقدام سے پیپلز پارٹی کی اپنی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔
انتخابات سے قبل دبئی میںایک اہم بیٹھک نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونی ہے۔ایسا گمان ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی آیندہ پانچ سالوں کے لیے ساتھ چلنے کی حکمت عملی طے کی جائے گی کہ ابھی ہائبرڈ نظام کی باقیات ٹھکانے نہیں لگیں اور ان کے مکمل خاتمے تک یہ اتحاد ہونا ضروری ہے،دوسری طرف اگر میثاق معیشت پر چلنا ہے تو بھی یہ ملک آنیوالے سالوں میں کسی بھی سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا، اسی لیے یہ الیکشن اتحاد بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔
میرے اس کالم کے شا ئع ہونے تک آئی ایم ایف کی طرف سے بھی کوئی اچھی خبر آچکی ہو گی ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ اتحادہمیں آیندہ چھ مہینے تک بین الاقوامی طور پر Certainty دے گا ۔ سیاسی استحکام سے ، معاشی استحکام میں مثبت تبدیلی یقینا آئے گی۔ اس وقت کا سب سے بڑا بحران ہے افراطِ زر اور اس پر قابو پانا بہت ضروری ہے، پاکستان کے لیے ابھی بہت سے چیلنجز ہیں۔
خان صاحب کا پورا دور بشمول نو مئی کا واقعہ کسی خانہ جنگی سے کم نہ تھا،لیکن اس وقت یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہمیں انتقامی کارروائیوں سے اجتناب برتنا چاہیے اور ہماری تمام تر توجہ صرف اس ملک کی منظم معیشت کی طرف مرکوز ہونی چاہیے جو کہ ہمارا اصل ہدف ہے۔سیاسی انتقامی کارروائیوں کی نیت ہمیں اصل ہدف سے یقینا دور کردے گی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تین بڑے ستون پارلیمنٹ، عدلیہ اور مقننہ ایک پیج پر ہوںگے (ہماری فوج مقننہ کا حصہ ہے اور حقیقی اعتبار سے بہت اہم ہے،وہ اپنا سیاسی کردار آیندہ کے پاکستان میں ادا کرے گی) مگر ضرورت اس وقت پرانے پاکستان کی ہے، جناح کے پاکستان کی ہے! 1973میں آئین کے ذریعے وضع کیے گئے پاکستان کی ہے۔ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو اشخاص کی صورت میں ،مختلف اداروں میں موجود ہیں اور جناح کے پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔