کامریڈ جلال الدین بخاری دوسرا اور آخری حصہ
کوئی تنگ نظر سے تنگ نظر شخص بھی انھیں اس اعزاز اور افتخار سے محروم نہیں کر سکتا
علی احمد بروہی کے لیے کسی تعارف کی ضرورت نہیں وہ نظریاتی طور پر بخاری صاحب سے اختلاف رکھتے تھے لیکن ان سے بے پناہ متاثر بھی تھے، وہ اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں۔
'' بچپن میں سندھی زبان کی ایک بہت ہی خوبصورت پہیلی سنی تھی '' ان تے چڑھی مروں چھڈیائوں، اینئں نہ چیائوں تہ پکھیئڑی '' اس پہیلی کی تشریح تین الفاظ میں سموئی ہوئی ہے، جنھیں ڈھونڈ کر پہیلی کو بوجھنا ہے۔ پہلا لفظ '' ان'' ( اناج) ، دوسرا ''مروں'' (مگرمچھ) اور تیسرا '' پکھیڑی'' (پرندہ) ... ''ان '' ( اناج) سے مراد مسورکی سرخ دال، '' مروں'' (مگرمچھ) سے مراد مگرمچھ ہے لیکن یہاں مراد سواری کے لیے بہترین اونٹ ہے اور '' پکھیڑی'' ( پرندہ) سے مراد آبی پرندہ مرغابی ہے، جب بھائیوں نے پکھیڑوں کو اونٹ پر بٹھا کرکیچ ( مکران) کی جانب بھگا لے گئے تو سسی نے اپنے دیوروں سے شکوہ کیا اورکہا '' آپ میرے پکھیڑوں کو لے گئے لیکن مجھے ساتھ چلنے کا پوچھا تک نہیں!''
ہم سے کامریڈ بخاری نے بھی اسی طرح کیا جس طرح سسی کے ساتھ اس کے دیوروں نے کیا تھا۔ کامریڈ ہمارے مربی، دانا اور بزرگ دوست تھے۔ کچھ ساعتیں ان کے ساتھ گزاری تھیں، تو یہ ہمارا حق بنتا تھا مگر ہم ساتھ نہیں جاسکتے تھے، لیکن دو پل کے لیے گلے تو مل سکتے تھے اور ان کی میت کو کاندھا دیتے اور آخری دیدار بھی کرتے لیکن موت کسی کو اتنی مہلت کہاں دیتی ہے کہ وہ سفرکی تیاری کر ے اور اپنے دوستوں کو ملنے کی دعوت دے۔ وہ سنتے تو سب کی تھے، مگر اپنے طریقے پر چلنے والے بندے تھے، نہ صرف کامریڈ بخاری، بلکہ اس زمانے میں ہر انقلابی میں یہی خصوصیات نظر آتی تھیں کہ وہ اپنی بات پر قائم رہتا ہے۔
آپ کے خاندان کا تعلق اچ شریف کے بخاری سادات سے تھا لیکن زمانے کی گردش میں آپ کے اجداد نے گجرات کا رخ کیا جہاں وہ احمد آباد کے سندھی واڑے ( محلے) میں آباد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شہر کے مدرسے میں حاصل کی بعد میں بخاری صاحب کو محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج علی گڑھ بھیجا گیا۔ 1918 میں کامریڈ بخاری علی گڑھ سے واپس آگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی عالمی جنگ کی تباہی اور بربادی دنیا کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔
ایک طرف جنگجوکھلاڑی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے، تو دوسری طرف روس میں مزدورکسان اور محنت کش بیدار ہو رہے تھے۔ ایسے ماحول میں دنیا کی نظریں صرف سرخ انقلاب پر مرکوز تھیں جو اپنے ساز و سامان، ہتھوڑے اور درانتی سمیت اکتوبر 1917 میں روس میں آچکا تھا۔
انقلاب کا زمانہ تو روس میں آیا تھا لیکن، رفتہ رفتہ بہت سے ملکوں میں پھیل گیا۔ بیسویں صدی کا یہ واحد واقعہ تھا جس نے کئی ملکوں میں تہلکہ مچا دیا تھا اور عام لوگوں کی سیاسی اور سماجی فکر میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی دیکھی گئی۔ بہت سے تو ایسے جذباتی اور جوشیلے نوجوان تھے جنہوں نے انقلابی نعروں کو آنکھیں بند کر کے اپنا ایمان بنالیا۔ کامریڈ بخاری بھی ان ہی عاشقوں میں سے ایک تھے، ویسے بھی عشق اور محبت میں عقل یا دلیل کا کوئی کام نہیں۔
کامریڈ نے اس کی تصدیق کے لیے وہاں کی زیارت کا قصدکیا کیونکہ وہ پہلے ہی سرخ سیلاب کے اسیر ہوچکے تھے۔ اس ارادے سے وہ احمد آباد چھوڑ کر صوبہ سرحد میں وارد ہوئے جہاں سے ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ بلخ او ر بخارا کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آٹھ سے دس مہینے سمر قند، ماسکو اور تاشقند گھومنے کے بعد واپس وطن آنے کا ارادہ کیا اور سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار ہوگئے۔ نتیجتاً کچھ عرصہ سرکار کے مہمان ٹھہرے ۔ یہ بخاری صاحب کی پہلی جیل یاترا تھی۔
1945 میں کامریڈ بخاری کا محنت کشوں کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے احمد آباد جانا ہوا جہاں مارچ کے مہینے میں کامریڈ شانتا سے ان کی شادی ہوگئی۔ کامریڈ شانتا نے کراچی آنے کے بعد محنت کش عورتوں کی تنظیم کو منظم کیا۔
معروف دانشور اور صحافی اشتیاق اظہر مرحوم کا ایک مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ''انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 35 سال لاڑکانہ کی سرزمین میں بسر کر کے اس تعلق کا حق ادا کر دیا جو سید جلال الدین بخاری نے سندھ کے ایک اور عظیم بزرگ لال شہباز قلندرکی رفاقت حاصل کرنے کے لیے اُچ اور سیہون کے درمیان قائم کیا تھا اور ان کی یاد آج بھی سرزمین سیہون میں چار یاروں کے نام سے مشہور و مقبول ہے۔
سید جلال الدین سرخ بخاری جب اپنے مرشد حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی اور ان کے رفیق خاص بابا فرید کے ہمراہ پنجاب سے سندھ آئے تھے اور سرزمین سیہون کو اپنی موجودگی سے سرفراز کیا تھا تو کسے خبر تھی کہ بخاری سلسلے کا ایک چشم و چراغ بیسویں صدی میں سیہون کی گزر گاہ لاڑکانہ کو اپنا وطن ثانی بنا کر ہمیشہ کے لیے اس شہر کی خاک کا پیوند ہوجائے گا اور یہ سرزمین مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی اولاد کی رہائش گاہ بن جائے گی۔
انھوں نے محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے جنوبی ایشیا کے بہت سے سیاسی قائدین اور انقلابیوں سے کہیں زیادہ برطانوی ہند کی جیلوں میں اپنی زندگی کے ایام بسرکیے، وہ لاڑکانہ سے بلاوجہ مانوس نہیں تھے، یہ شہر ان کا دیکھا بھالا تھا۔ مرحوم بخاری نے حصول آزادی کے بعد اس شہرکو اپنے وطن ثانی کے طور پر منتخب کیا اور آخرکار یہیں سے 17 دسمبر 1984 کو انھوں نے سفر آخرت اختیار کیا۔
17سال کی عمر میں انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا، اس وقت جنوبی ایشیا کا سیاسی میدان ، مولانا محمد علی جوہرکی ولولہ انگیز قیادت اور مولانا حسرت موہانی کی بے خوف سیاست سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ نوجوان جمال الدین بخاری کے لیے یہ دونوں عظیم سیاستدان مشعل راہ اور رہنمائے راہ کی حیثیت رکھتے تھے، جب مولانا محمد علی اور مولانا حسرت موہانی ریشمی رومال تحریک کو مزید تقویت بخشنے کے لیے جیلوں میں مشکلات سہہ رہے تھے اور اسیری کے ایام بسر کر رہے تھے۔
اسی زمانے میں روس میں بالشویک انقلاب برپا ہوا، نوجوان بخاری نے مولانا حسرت موہانی کی اتباع میں اس انقلاب کو عالمی استحصال اور سرمایہ دارانہ ظلم و ستم کے خاتمے کا نقیب گردانا اور وہاں کے حالات کے ذاتی مشاہدے کے لیے چند نوجوان دوستوں کے ہمراہ پا پیادہ اور خچروں پر کابل، مزار شریف کے راستے سمر قند، تاشقند اور ماسکو اور اپنے اصلی وطن بخارا کا سفر اختیارکیا اس عالم میں تقریباً دو سال بسرکر دیے۔
اس طرح جب حالات نے اجازت دی تو مزدروں اورکسانوں کے مخلص رہنما سید جمال الدین بخاری نے عدن، پورٹ سعید، جبرالٹر، لیور پول اور لندن کا سفر بھی اختیارکیا۔ غرضیکہ اپنے ہیرو محمد علی جوہر اور حسرت موہانی کی اتباع نے انھیں تحریک خلافت اور تحریک آزادی میں ہی نہیں، اپنے زمانے کی دوسری تمام تحریکات میں بھی شرکت و شمولیت کا موقع فراہم کیا۔
جب مولانا حسرت موہانی نے 1925 میں کانپور میں کانگریس کے موقع پر جنوبی ایشیا کے سر پھرے انقلابیوں کی رہنمائی کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا قائم کی تو جمال الدین بخاری بھی اپنے ہیروکی پیروی کرتے ہوئے اس جماعت کے بانیوں کی صف میں شامل ہوگئے۔
جب قائد اعظم نے جنوبی ایشیا میں دو قومی نظریے کی حمایت کی اور مملکت خداداد پاکستان کے قیام کا نعرہ بلند کیا تو یہ سید جمال الدین بخاری ہی تھے جنھوں نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے تعاون سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو حق خود ارادیت کے اصول کے تحت مطالبہ پاکستان کی حمایت کی راہ اختیارکرنے پر آمادہ کیا۔ اس مطالبے کو پوری مملکت اسلامیہ کی پکار ہی نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کے غیر مسلم، غیر متعصب افراد کو بھی اس مطالبے کی اخلاقی حمایت کا سزا وار بنا دیا۔
ہمیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ جمال الدین بخاری اپنی بے پناہ قربانیوں کی بنا پر ہر طرح اس عظیم تحریک کے بانیوں اور حامیوں میں شامل ہیں۔ کوئی تنگ نظر سے تنگ نظر شخص بھی انھیں اس اعزاز اور افتخار سے محروم نہیں کر سکتا۔