عید الاضحی پر ریکارڈ فلموں کی تیاری

انڈسٹری کی رونقیں بحال، فنکار خوشی سے نہال


Mian Asghar Saleemi July 02, 2023
انڈسٹری کی رونقیں بحال، فنکار خوشی سے نہال۔ فوٹو: فائل

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2018ء میں مجھے کسی کام کے سلسلے میں لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر کرنا پڑا، میں جس بس میں سوار تھا اس میں ایک بھارتی پنجابی فلم ''کیری آن جٹا'' لگی ہوئی تھی۔

فلم اتنی طنزومزاح اور کامیڈی سے بھر پورتھی کہ زندہ دلوں کے شہر سے شہر اقتدار تک کے طویل سفر کا محسوس ہی نہ ہوا،بعد ازاں اس فلم نے اتنی کامیابیاں سمیٹیں کہ اب تک کروڑوں افراد اس فلم کو بار بار دیکھ چکے ہیں، کیری آن جٹا سے قبل پاکستان اور بھارتی فلموں کی ایک روایت تھی کہ فلم کی سٹوری کے دوران زیادہ سے زیادہ 2سے3 کامیڈی کے سین ہی اس میں شامل کئے جاتے تھے۔

کوئی بھی ڈائریکٹر پوری کی پوری فلم ہنسنے ہنسانے کے موضوع پر بنانے کا رسک نہیں لیتا تھا، لیکن گپی گریوال نے یہ خطرہ بھی مول لیا اورکیری آن جٹا کے نام سے پوری کامیڈی فلم ہی بنا دی، یہ تجربہ اتنا کامیاب ہوا کہ اس پریکٹس کو اب بھارت کے ساتھ پاکستان فلم انڈسٹری میں بھی آزمایاجا رہا ہے جس کی تازہ مثال کچھ عرصہ قبل ریلیز ہونے والی فلم ''سپرپنجابی'' ہے، کیری آن جٹا کے دوسرے کامیاب سیزن کے بعد اب تیسرے سیزن میں بھارتی فنکاروں کے ساتھ پاکستانی کامیڈین ناصر چنیوٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے بھارتی پنجابی فلم ''چل میرے پت'' میں بھی افتخار ٹھاکر، ناصر چنیوٹی، اکرم اداس سمیت دیگر پاکستانی فنکاروں کو بھی ایکشن میں دکھائی دینے کا بھر پور موقع فراہم کیا گیا، دوسری فلموں کی طرح یہ فلم بھی پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں خاصی پسند کی گئی، پاکستان اور بھارتی فنکاروں کا ایک ہی فلم میں اکٹھے کام کرنا اس لحاظ سے بھی خاصا خوش آئند ہے کیونکہ اس پریکٹس سے جہاں دونوں ملکوں کے فنکار ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں وہیں شائقین کو بھی طنزومزاح سے بھرپور فلمیں دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔

کیری آن جٹا فلم کی پروموشن کے لئے بھارتی اور پاکستانی فنکاروں کی لاہور اور کراچی میں ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس ہوئی جس میں پاکستانی اور بھارتی فنکاروں کا کہنا تھا کہ فنکار کیلئے کوئی سرحد نہیں ہوتی بلکہ اب تو چڑھدا پنجاب اور لیہندا پنجاب کا کانسیپٹ بھی ختم ہوگیا ہے، پنجاب ایک ہی ہے اور اس کے تمام فنکار بھی ایک ہیں۔

انڈین پنجابی فلم کیری آن جٹاکے ہیرواور پروڈیوسر گپی گریوال بنوں ڈھلوں سونم باجوہ، کویتا، ناصرچنیوٹی، افتخار ٹھاکر اور آئی ایم جی سی کے روح رواح عابد رشید شیخ کا کہنا تھا کہ اس فلم میں کام کرنے کا جتنا مزہ آیا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، ہمارا سب سے بڑا مقصد لوگوں کے چہروں پر خوشیاں اورہنسی بکھیرنا ہے جو ہم نے اس فلم کے ذریعے سے کیا ہے، گپی گریوال، بنوں ڈھلوں، سونم باجوہ اور کویتا کے مطابق پاکستان میں جتنا لوگ ہم سے پیارکرتے ہیں بہت جلد پاکستان کادورہ کریں گے۔

بات صرف کیری آن جٹا پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار 10 سے زائد فلمیں عیدالاضحی پر سینما گھروں کی زینت بنی ہیں جن میں مہوش حیات، رمشا خان، حرا مانی، شہریار منور، وہاج علی، ناصر چنیوٹی، شفقت چیمہ،گپی گریوال، سونم باجوہ سمیت نامور فنکار ایکشن میں ہیں۔

فلموں کے شوقین اگر کسی بڑی فلم کا انتظار کرتے ہیں تو اس میں اکثر کی ریلیز عید کے موقع پر ہوتی ہے۔ عید پر فلموں کا ریلیز ہونا ہمیشہ ایک بڑی کامیابی کی ضمانت مانی جاتی رہی ہے۔ اس تہوار کے موقع پر فلم کو پر لگ جاتے ہیں۔ کاروبار ریکارڈ توڑ ہوتا ہے۔ عید کی چھٹیوں میں عوام کی دلچسپی میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے جس کے سبب فلم کا کامیابی یقینی ہوتی ہے۔

اب بھارت اور پاکستان میں یہ ایک روایت کا حصہ ہے ،اول تو فلم کا جمعہ کو ریلیز ہونا اور دوسرا عید کے موقع پر۔اگر اس کی تاریخ کی بات کریں تو اس کا تعلق ملک کی آزادی سے ہی ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تقسیم ہند کے بعد سرحد پار پاکستان کی پہلی تیار کردہ فلم 'تیری یاد' سات اگست 1948 کو عیدالفطر کے موقع پر ہی نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔ مذکورہ فلم کے مرکزی کرداروں میں اداکار ناصر خان اور آشا بھوسلے شامل تھے۔

ناصر خان دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی اور اس وقت کے کامیاب اسٹار تھے۔ یہی نہیں ناصر خان کیریئر کی اہم فلم 15 اگست 1947 یعنی ملک کی آزادی کے دن 'شہنائی' کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ناصر خان کے ساتھ کشور کمار،ریحانہ اور اندومتی شامل تھیں۔بات یوم آزادی کی نہیں تھی بلکہ اس کا عید کے آس پاس ہونا تھا۔ دراصل شہنائی' بھی ایک لحاظ سے عید کے موقع پر ریلیز ہوئی تھی اور وہ یوں کہ 14 اگست 1947 کو 27 رمضان المبارک تھی اور اس کے بعد 15 اگست انڈیا کی آزادی کا دن عید کے ساتھ جڑ گیا تھا۔

یوں فلم 'شہنائی' کی تشہیر اس طرح سے کی گئی کہ 'آزادی اور عید کا تحفہ' ساتھ ہو۔برصغیر جب تقسیم ہو رہا تھا اور وہ تاریخ کے نئے دوراہے پر تھا تو اس وقت ناصر خان کی فلمیں اس خطے کے سنیماوں کی زینت بن رہی تھیں۔ اس سے قبل 24 اکتوبر 1947 عیدالاضحی کے موقع پر بمبئی میں تیار کردہ فلم 'بندیا' کی پاکستان میں نمائش ہوئی تھی جس میں راگنی، امر، شاکر اور ای بلوریا اہم کرداروں میں تھیں۔

بات واضح ہے کہ عید ملک کی اقلیتوں کا سب سے بڑا تہوار ہونے کے سبب عید کو بالی ووڈ نے خوب بھنایا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عید کے موقع پر بالی ووڈ کے کچھ گیت بھی سپر ہٹ ہوئے ہیں جو ہر سال عید کی محفلوں میں سنے جاتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عید آئی تو اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں بھی لائی' عید کی نماز پڑھنے کے بعد جہاں شیر خرما اور سیویوں سے منہ میٹھا کروایا جاتا ہے وہیں جانور کی قربانی کر کے سنت ابراہیمی بھی پوری کی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا خاص تحفہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس بار بھی پاکستان میں سینما گھر آباد دکھائی دیئے، جس کی بڑی وجہ پاکستانی اور بالی ووڈ کی کی فلمیں تھیں۔

شائقین کی بڑی تعداد تعداد عید پر سینما گھروں کا رخ کرتی دکھائی دی، کسی نے اردو فلم دیکھی تو کسی نے پنجابی ، بس یوں سمجھ لیجئے کہ عید میلہ پر لگنے والی فلمیں تمام عمر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں خاص بات یہ تھی کہ عید الاضحی کے موقع پر فیملیز کی بڑی تعداد نے سینما گھروں کا رخ کیا اور انٹرنیشنل معیار کی فلمیں دیکھ کر پاکستانی فنکاروں تکنیک کاروں کو خوب داد سے نوازا۔اپنی فلموں کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز اور فنکاروں نے عید سے قبل اپنی اپنی فلموں کی بھر پور انداز میں پروموشن مہم بھی چلائی۔

پاکستانی اور بھارتی فنکاروں کی طرح عید الاضحی پر پاکستان فلم انڈسڑی میں بھی نت نیا تجربہ کیا گیا، پاکستانی فلمی صنعت کے تین شہرہ آفاق ڈائریکٹرز کی زیر نگرانی بننے والی نئی فلم ''تیری میری کہانیاں'' بھی عید الاضحی پر ریلیز ہوئی، سٹار کاسٹ پر مبنی فلم ہورر، کامیڈی اور رومانس سے بھر پور ہے جسے شائقین نے خاصا پسند کیا ہے، فلم ریلیز ہونے سے قبل فنکارلاہور میں اکٹھے ہوئے اور مہوش حیات، رمشا خان، شہریار منورندیم بیگ اور سیمی نوید نے فلم کے سفر کے بارے میں میڈیا سے کھل کا اظہار کیا۔

فنکاروں اور ڈائریکٹرز کا کہنا تھا کہ تیری میری کہانیاں، ایک فیچر فلم ہے جس میں مختلف اداکاروں اور ہدایت کاروں کے ساتھ تین مختلف مختصر کہانیوں کو یکجا کرکے ایک فلم میں پیش کیاگیا ہے۔ یہ فلم پاکستانی سنیما پراپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔ جس میں کسی ایک پلاٹ پر انحصارکی بجائے متعدد کہانیوں پر مشتمل انتھالوجی کا انتخاب کیا گیا ہے۔

ہدایتکار ندیم بیگ کا کہنا تھا کہ فلم اچھی ہو تو شائقین ضرور دیکھنے کے لئے آتے ہیں، خوشی ہے کہ ہماری فلم کا تجربہ کامیاب رہا اورہماری فلم نے بھر پور کامیابی سمیٹی، مہوش حیات کا کہنا تھا کہ میں نے شہریار منور، ہمایوں سعید سب کے ساتھ کام کیا ہے، وہاج علی کے ساتھ بھی کام کر کے بہت اچھا لگا، رومینٹک سین کے ساتھ ایکشن فلموں میں بھی کام کرنے کا سوچ رہی ہوں، اداکارہ رمشا خان نے کہا کہ کافی عرصے کے بعد فلم میں کام کیا ہے جس کی وجہ سے تھوڑا بہت پریشر بھی تھا، مجھے خود پر پورا اعتماد تھا کہ یہ فلم شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔

یہ پاکستانی سینما گھروں میں پیش کی جانے والی سب سے بڑی سٹار کاسٹ پر مبنی فلم ہے جس میں ایک سکرین پر شہریار منور، رمشا خان، آمنہ الیاس، مہوش حیات، وہاج علی سمیت متعدد بڑے نام ایکشن میں دکھائی دیئے۔ فلم 'تیری میری کہانی' تین نامور ہدایت کاروں کی جانب سے پیش کی گئی ہے جن میں نبیل قریشی، ندیم بیگ اور مرینہ خان شامل ہیں۔

ایک اور پاکستانی فلم'' آر پار'' کے بھی خاصے چرچے ہیں، اس فلم کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس فلم کی کاسٹ ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز پہلے ہی آٹھ بین الاقوامی فلمی میلوں میں ریکارڈ انٹری حاصل کرکے تادم تحریرپانچ ایوارڈز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ فلم کے مصنف بین الاقوامی شہرت یافتہ 'مایہ ناز مصنف مشہود قادری ہیں جنہیں ان کی فلم ''ساون'' کی بہترین کہانی اورسکرین پلے پر دس سے زائد ایوارڈز دیئے جاچکے ہیں۔

مشہود قادری کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی آسکر کمیٹی کی جانب سے انہیں آسکر کے لیے نامزد کیا تھا۔''آر پار'' کی ہدایت کاری کا فریضہ باصلاحیت ڈائریکٹر سلیم داد نے انجام دیا ہے 'یہ فلم پوری کاسٹ اور عملے کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس فلم کے جگمگاتے ستاروں میں سدا بہاراداکار معمر رانا'شامل خان'ارم اختر' عکاشہ گل' مشہود قادری' فرقان احمد' ذہاب خان' احمد حسن' عریج چوہدری اور دیگرشامل ہیں جبکہ معمر رانا کی صاحبزادی رائنا معمر رانا اس فلم میں ڈیبیو کیا اور اپنی جاندار اور شاندار اداکاری سے سب کو خاصا متاثر کیا۔

اس فلم کی بھی عید سے قبل لاہور کے مقامی ہوٹل میں پروموشن تقریب کا انعقاد کیا گیا، تقریب کے دوران فلم کے اب تک حاصل کئے جانے والے بین الاقوامی ایوارڈز پر مشتمل ایک پریزنٹیشن دکھائی گئی جس کے بعد فلم کی دلچسپ جھلکیوں کو ناظرین کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ اس موقع پرفلم کے مصنف مشہود قادری کا کہنا تھا کہ تنقیدی طور پر سراہی جانے والی یہ فلم ایکشن' سسپنس اور ڈرامے کا ایک نہایت عمدہ امتزاج ہے جس میں خواتین کو بااختیار بنانے'نازک رشتوں'خاص طور پر ازدواجی تعلقات اور وقت کی کسوٹی پر کھڑی دوستی کے مسائل کے حل جیسے معاملات کو نہایت مشاقی سے پیش کیا گیا ہے۔

مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ فلم '' آر پار'' کو نہ صرف انٹرنیشنل فلم فیسٹولز کی جانب سے بہت سے ایوارڈز دیئے گئے بلکہ اس پر گرانقدر تجزیئے اور تبصرے بھی کئے گئے۔ مجھے فخر ہے کہ میں دنیا بھر کو معیاری تفریح فراہم کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوں۔'' فلم ''آرپار'' کی دلکش کہانی کمال (شامل خان) اور ارمان سنگھ (معمر رانا) کے درمیان سرحدوں کے پار دوستی کے سفر سے شروع ہوکر ان کے خاندان کا احاطہ کرتی ہے۔ کمال اورسارہ (ارم اختر) میاں بیوی ہیں جن کے دو بچے ہیں جبکہ ارمان اورسادہ لوح سونیا (عکاشہ گل) میاں بیوی ہیں جن کی ایک بیٹی ہے۔

فلم میں یہ لوگ زندگی کی جانب سے دیئے گئے چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیںاور ان تمام مراحل کو انتہائی دلچسپ انداز میں فلمایا گیا ہے۔ عید الاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی ایک اور فلم 'مداری' ایک ایسی فلم ہے جس میں کراچی کے ماضی کی عکاسی اور سیاسی انتشار پسندی کی بھینٹ چڑھنے والے عام شہری کی کہانی دکھائی گئی ہے جو بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے مختلف حالات سے گزرتا ہے۔

کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسا لڑکا ہے جو آزاد تو ہے لیکن کہیں نہ کہیں اسے لگتا ہے کہ وہ کنٹرولڈ ہے، فلم کی انتظامیہ کے مطابق کراچی کے سیاسی حالات، جرائم اور شہر کے ہر اس مسئلے کی وجہ سے ہے جس سے ایک عام شہری گزر رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے فلم کا نام مداری رکھا ہے۔لالی وڈ پنجابی فلم 'لاڈے دا ویاہ' کا ٹریلر لانچ ہوا تو اسے بھی خاصا پسند کیا گیا، فلم کی کاسٹ میں علی یلماز، ماہ رخ مرزا، سلیم البیلا، گوگا پسروری، خالد بٹ، شفقت چیمہ اور راحیلہ آغا سمیت دیگر فنکار شامل ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی تین سے زیادہ فلمیں ایک ساتھ ریلیز کی گئیں تو کسی ایک کو بھی فائدہ نہیں پہنچا اور فلم انڈسٹری مختلف مسائل کا شکار ہوگئی۔ ان باتوں کے برعکس، انڈسٹری کے لیے امید اور خوشی کی بات یہ ہے کہ نئے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر فلموں کی جانب آرہے ہیں،جس کی وجہ سے شائقین کو سینما گھروں کے بڑے پردے پرنیا ٹیلنٹ دیکھنے کو مل رہا ہے ، کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ نئے چراغ جلیں گے تو اجالا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں