مضبوط انتظامیہ عوامی مسائل کے حل کے لیے ضروری
اب بھی وقت ہے کہ حکومت انتظامیہ کو مضبوط بنا کر اسے عوامی مسائل کے حل میں استعمال کر سکے
جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد انگریز دور کے قائم کردہ کمشنری نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
نجانے ان کا کمشنر کے نام سے کیا بیر تھا لیکن ہمارے ایک سابق چیف سیکریٹری کے مطابق جنرل مشرف نے اپنے بھائی کے ساتھ حسد کی وجہ سے یہ کامکیا ان کے خیال میں جنرل مشرف کے بھائی کہیں اسسٹنٹ کمشنر تھے جب پرویز مشرف فوج میں کپتان تھے چونکہ انتظامی عہدہ ہونے کی وجہ سے اے سی صاحب اچھی خاصی ٹہور اور پروٹوکول ہوتا ہے تو صدر مشرف کو ان سے حسد محسوس ہوتا تھا۔
ہماریے یہ چیف سیکریٹری کہتے تھے کہ اس کے سوا تو کوئی اور وجہ نہیں تھی کہ صدیوں سے جاری انتظامی نظام کو ایسے لپیٹ دیا جائے کہ اس کا متبادل بھی موجود نہ ہو۔ اس وقت نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس نے کمشنری نظام کے متبادل مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا۔
بتایا گیا کہ ضلع ناظم کے پاس کافی سارے اختیارات ہوں گے' ٹیکس وصولی سے لے کر خرچ کرنے تک۔ کمشنر اور ڈی سی کے عہدے ختم کر دیے گئے۔ اس کی جگہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کے نام سے نیا عہدہ متعارف کروایا گیا' مجسٹریسی نظام بھی اس کے ساتھ ختم ہو گیا۔ پولیس ایکٹ کے ذریعے پولیس جو ضلعی انتظامیہ کے ماتحت تھی اس کو آزاد کر دیا گیا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کا نیا عہدہ جو متعارف کر دیا گیا تھا اسی میں تمام تر اختیارات ضم کر دیے گئے۔
کمشنری نظام میں ڈی سی اپنے علاقے میں حکومتی ٹیکس وصولی، زمینوں کی نگران سمیت امن و امان کے قیام کا ذمے دار تھا۔ اسی لیے سڑک بند کرنے دنگے کرنے والوں کے خلاف پولیس کو ایکشن حکم انتظامیہ دیا کرتی تھی' اس کے بعد یہ پولیس کا اختیار ہوا۔ اب حالت یہ ہے کہ سڑکیں کئی کئی دن بند ہوتی ہیں لیکن پولیس ایکشن لینے سے گھبراتی ہے۔
پشاور میں ریڈیو پاکستان جلائے جانے سمیت 9 مئی اور 10 مئی کو ہونے والے واقعات ایک ناکام اور کمزور انتظامی مشینری کا ثبوت ہیں۔ اگرچہ بعد میں آنے والی حکومتوں نے کمشنری نظام بحال کر دیا لیکن جو نقصان ہونا تھا ہو چکا تھا۔
قبائلی علاقوں میں بھی اور بندوبستی علاقوں میں بھی۔ بندوبستی علاقوں میں کمشنری نظام کے خاتمے سے قبضہ گروپوں نے جنم لیا۔ 2000 سے قبل خیبرپختونخوا سمیت کہیں پر قبضہ گروپوں کا رواج نہیں تھا۔ جب ڈی سی او کا عہدہ ضلع کی سطح پر قائم کیا گیا تو مقامی محکمے ایک ساتھ انھیں منتقل نہیں کیے گئے۔
پورے دو سال تک تو ضلع کی سطح پر محکمہ مال کا نظام ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ ڈی سی کا عہدہ ختم تھا اور ڈی سی او کے پاس ریونیو اور سرکاری زمینوں کا اختیار نہیں تھا۔ انھیں دو سالوں میں لینڈ مافیا نے مقامی پٹواریوں کے ساتھ ملکر سرکاری اور عام لوگوں کی زمینوں پر ایسے قبضہ کیا جیسے والدین کا مال ہو۔ کئی سالوں تک تو اشیائے نرخ کی قیمتیں جن کے مقرر کرنے کا اختیار ڈی سی اور مجسٹریسی کے پاس تھا وہ منتقل بھی نہیں ہو سکا۔
شہر میں دو نمبر اشیائے خورد و نوش کے بھرمار بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ جعلی جعلی ناموں سے کولڈ ڈرنکس، صابن، شیمپو سمیت بچوں کے پاپڑ تک جعلی اور غیر صحت مند طریقوں سے بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع ہوئے جو ابھی تک جاری ہے۔ حالانکہ حکومت اس مقصد کے لیے فوڈ اتھارٹی سمیت کئی ادارے بنا چکی ہے لیکن اب بھی مضر صحت اشیائے خوردونوش و عام استعمال کی چیزوں سے مارکیٹیں بھری پڑی ہیں۔
نرخ نامے کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی چیز کہیں پر بھی صوبے میں سرکاری مقرر کردہ نرخ پر فروخت نہیں ہو رہی ہے۔ پہلے پہل صرف ایک مجسٹریٹ شہر کے اندر گھستا تھا تو نانبائی سے لے کر قصائی، پنساری تمام تر لوگ خوف کا شکار ہو جاتے۔ آج نانبائی کی اپنی مرضی ہے جو چاہے نرخ مقرر کردے۔
کہیں روٹی 20 کی ہے کہیں 25، کہیں 30 اور کہیں 40 کی۔ خرید و فروخت کا سرکاری اجازت نامہ یعنی لائسنس لینے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گھر کے اندر بھی آپ کے رہائشی علاقے میں کوئی بھی کام دھندہ شروع کر سکتے ہیں۔
یہ تو رہا بندوبستی علاقوں کا احوال اب ذرا سابقہ قبائلی علاقے کی بات کرتے ہیں کہ مضبوط انتظامیہ کو کمزور کرنے کی وجہ سے اب کن مسائل کا سامنا ہے۔ صدر مشرف نے قبائلی علاقوں میں بھی پورے ملک کی طرح بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 2001 میں کرایا۔ پرانے قدآور اور تجربہ کار ملکان کی جگہ ایک نئی اور غیر تجربہ کار قیادت پیدا کی گئی۔
انگریزی نظام کے ملکان کو بلدیاتی نظام کا یہ نقصان ہوا کہ ان کا اثر و رسوخ ختم ہو گیا ہے لیکن منصوبہ سازوں نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ ملک کے نظام کو کمزور کرکے وہ اپنی ہی حکومتی عملداری کو بھی کمزور بنا رہے ہیں کیونکہ سابقہ قبائلی علاقوں میں بندوبستی علاقوں کے برعکس حکومتی عملداری پولیس یا فورسز کے بجائے ملکان کی ذمے داری تھی۔ ملکان ہی انتظامیہ کے تمام مسائل کو حل کرتے اور سارا نظام انھیں کے ذریعے چلتا تھا۔
ملکی نظام کی کمزوری کے باعث سابقہ قبائلی علاقوں میں بدامنی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے حالانکہ اب قبائلی علاقے رہے بھی نہیں۔ اب یہ صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں اور باقاعدہ صوبائی اسمبلی میں ان کی نمایندگی ہے۔
لیکن انتظامیہ جو 2001 میں بلدیاتی نظام کے باعث کمزور ہو گئی تھی وہ پھر کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ یہاں مقصد بلدیاتی نٰام کی کمزوری یا ناکامی بتانا مقصود نہیں بلکہ بات صرف اور صرف انتظامیہ کی کمزوری کی ہو رہی ہے۔
ایک مضبوط انتظامیہ شہر میں انتظام و انصرام چلانے کے لیے از حد ضرور ہے۔ آج صرف پشاور شہر کا حال یہ ہے کہ جس کی جہاں مرضی ہے کالونی بنا رہا ہے۔ شہر کو سبزیاں مہیا کرنے والی زرعی زمینیں سکڑنے کے بعد اب ختم ہونے کے قریب ہیں۔ شہر میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہاں پر کوئی ٹریفک کا نظام ہی نہیں۔ بغیر رجسٹریشن اور پرمٹ کے ہزاروں کی تعداد میں رکشہ اور چنگ چی شہر کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔
اب تو مین جی ٹی روڈ پر بھی گاڑیوں نے اپنا باقاعدہ اڈے بنائے ہیں۔ سڑک کے عین اوپر لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی طرح شہر میں دہی، دودھ، پھل اور سبزیوں کے کوئی نہ نرخ ہیں نہ ہی کوئی معیار ہے۔ شہر ایسے گندہ لگتا ہے جیسے قرون وسطی کا کوئی گندہ شہر ہے اگرچہ ڈبلیو ایس ایس پی بہت اچھا کام کر رہی ہے لیکن شہریوں کو بھی اپنے فرائض سے آگاہی نہیں۔ شہر میں پارک ختم ہوتے جا رہے ہیں کوئی نیا پارک بنا ہی نہیں۔ غرض بلدیاتی نظام کے ساتھ ساتھ مضبوط انتظامیہ بھی انتہائی اہم ہے۔ آج انتظامیہ کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکل گیا ہے۔
قانون شکنی اب فیشن بنتا جا رہا ہے اب بھی وقت ہے کہ حکومت انتظامیہ کو مضبوط بنا کر اسے عوامی مسائل کے حل میں استعمال کر سکے۔صرف انتظامیہ متحرک ہونے سے بھی خود ساختہ مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے جو عوام کے لیے ایک بڑے ریلیف سے کم نہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کے خاتمے کے بعدہی ہم بڑے مسائل کی طرف توجہ سے سکیں گے۔