مقام عبرت
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں حالات اس قدر تبدیل ہو جائیں گے
یہ بات کوئی اتنی بھی مشکل اور ناقابل فہم نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کے بہتر معاشی حالات کا انحصار اس کے یہاں امن و سکون اور سیاسی استحکام سے وابستہ اور منسلک ہوا کرتا ہے، جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں کوئی بھی سرمایہ دار اپنا سرمایہ نہیں لگا سکتا۔
یہ بات پی ٹی آئی چیئرمین کو بھی اچھی طرح معلوم اور ازبر تھی۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ساری طاقت اور توانائی اسی ایک مقصد کے حصول میں لگا دی کہ یہاں کبھی بھی امن و سکون قائم نہ ہو پائے۔ 2014 کا لانگ مارچ اور اسلام آباد میں ڈی چوک کے مقام پر126 دنوں کا دھرنا ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی پہلی بڑی کوشش تھی۔
صرف چار حلقوں میں دھاندلی کا ایشو کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں تھا کہ اس کی خاطر اتنا بڑا معرکہ لڑا جاتا، مگر پس پردہ کچھ حلقوں کی پشت پناہی کے بل بوتے یہ سوانگ بھی رچایا گیا۔ 2013 میں الیکشن کے نتائج اتنے متنازع بھی نہیں تھے کہ کسی جیتی ہوئی پارٹی کو ہارنے والی پارٹی بنا دیا گیا ہو۔
نتائج توقعات کے عین مطابق تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ہونے والی ناکامیوں کے بعد مسلم لیگ نون کی جیت کوئی ناممکن اور غیر یقینی نہیں تھی۔ مگر سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے مسلم لیگ نون کو کام نہ کرنے دینے کی خاطر یہ دھرنا ایک طے شدہ اسکیم کے تحت اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے ارینج کیا گیا۔ سارا ملک مفلوج اور منجمد کر دیا گیا۔
اُن دنوں ایک طرف ملک میں آئے دن خود کش حملے اور بم دھماکے بھی ہو رہے تھے اور کراچی میں ایک سیاسی تنظیم روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کا بازار بھی گرم کیے ہوئے تھی، ایسے میں سیاسی استحکام کیسے ممکن ہوسکتا تھا۔
میاں نواز شریف نے وہ ایام کس طرح کرب اور پریشانی کے عالم میں گذارے ہونگے یہ وہی جانتے ہیں، مگر جب نیت درست ہو اور عزم و ارادے فولادی اور غیر متزلزل ہوں تو قدرت بھی معاون و مددگار ہو جایا کرتی ہے۔ دھرنا اور اس کے محرکین ناکام و نامراد ہوگئے۔
ملک جیسے تیسے ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرنے لگا۔ کراچی شہر میں امن قائم ہوا اور ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا۔ بجلی اور توانائی کا بحران بھی ختم ہوا، ملک کا انفرا اسٹرکچر تبدیل ہونے لگا اور سی پیک پر تیزی سے کام ہونے لگا۔ دو سالوں کے مختصر عرصے یہ کامیابیاں کوئی معمولی نہیں تھیں، مگر سیاسی مخالفوں کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل قبول تھیں۔ وہ ایک بار پھر اپنی حکومت دشمن سرگرمیوں میں لگ گئے۔
ایسے میں پاناما اسکینڈل منظر عام پر آجاتا ہے جس میں دنیا کے بیشتر ممالک کے بڑے بڑے سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے نام شامل تھے۔ ساری دنیا میں اس اسکینڈل سے کوئی منحنی سی بھی لرزش یا ہلچل بھی پیدا نہیں ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کو لے کر طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
480نامزد افراد میں سے کسی ایک فرد کو بھی جوابدہی کے لیے طلب نہیں کیا جاتا ہے لیکن جس شخص کا نام اس فہرست میں شامل ہی نہیں تھا اسے نہ صرف تحقیقاتی کمیٹیوں کے سامنے طلب کیا جاتا ہے بلکہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں JIT بنا کر زندگی بھر کے لیے اسے نااہل بھی قرار دے دیا جاتا ہے اور تو اور پھر نیب کی عدالتوں میں فوری مقدمات چلا کر نئے الیکشن سے قبل دس سالوں کے لیے پابند سلاسل بھی کر دیا جاتا ہے۔وہ دن ہے اور آج کا دن پاکستان معاشی و اقتصادی طور پر مسلسل انحطاط پذیری اور تنزلی کا شکار ہوتا رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی خود بھی کچھ نہیں کرسکے اور دوسروں کو بھی کچھ کرنے نہ دیا۔ اُن کی کوشش تھی کہ یہ ملک سری لنکا کی طرح دیوالیہ اورکنگال ہوجائے۔
گزشتہ برس اقتدار سے محروم ہو کر انھوں نے ایک دن کے لیے بھی اس ملک میں امن و سکون قائم ہونے نہیں دیا۔ پہلے ہمیں طالبان دہشت گردوں نے کئی سالوں تک تباہ و برباد کیا اور پھر ہمارے اپنے ظاہری خیر خواہوں نے باقی بچی معیشت بھی نیست و نابود کر دی۔ یہ کوئی لفظی اور سیاسی بیان بازی یا چرب زبانی نہیں ہے بلکہ واضح زمینی حقائق ہیں۔ ذرا 2017 کی معیشت کا موازنہ 2021 سے کر کے دیکھ لیں ، ساری حقیقت کھل کر عیاں ہوجائے گی۔
کسی من پسند لیڈر سے دلی ہمدردی یا جذباتی وابستگی کی عینک اتار کر صرف وطن عزیز اور ارض پاک کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو سب کچھ واضح اور عیاں ہوجائے گا۔ کس نے اس ملک کی خدمت کی ہے اور کس نے سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے اس کی جڑیں کمزور کی ہیں۔ 9 مئی کو ہونے والے واقعات نے تو اور بھی بہت کچھ واضح کردیا ہے۔
اس روز جو کچھ بھی ہوا وہ ہم سب کے لیے باعث ندامت اور شرمندگی ہے۔ اس نے اپنے چار سالہ دور میں ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جس سے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھلتی دکھائی دیتی ہوں۔ 20 ارب ڈالر کا نیا قرضہ اس قوم پر مسلط کر کے بھی ایک ایسا منصوبہ وہ شروع نہ کرسکا جسے ہم اپنی ترقی و خوشحالی کا ضامن قرار دے سکیں۔ الٹا اس شخص نے سی پیک کو بھی لپیٹ کر رکھ دیا تھا۔
اقتدار سے معزولی کے بعد وہ ایک سال تک سڑکوں کی سیاست کرتا رہا۔ ہرچند روز بعد وہ کوئی جلسہ کرتا، لانگ مارچ پر نکلتا اور کسی مقام پر دھرنا دینے کی باتیں کرتا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ نومبر 2022 میں ہونے والی اہم عسکری تعیناتی کو کسی طرح سبوتاژ کر سکے۔ اس میں ناکامی کے بعد وہ انتہائی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر ہر وہ کام کرنے لگا جس کا نتیجہ خود سوزی یا خود کشی پر منتج ہوا کرتا ہے۔
اسے کسی اور نے اس حالت میں نہیں پہنچایا ہے وہ خود اپنی اس حالت کا ذمے دار ہے۔ وہ کچھ عرصہ قبل دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خوش فہمی یا خوش گمانی کے سحر میں گرفتار تھا، مگر اب اس کے پاس دو نشستوں کی کامیابی کے لیے بھی مطلوبہ افراد موجود نہیں ہیں۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں حالات اس قدر تبدیل ہو جائیں گے۔ کہنے والے اب بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس کا ووٹ بینک جوں کا توں ہے، ایک دن وہ پھر سرخرو ہوگا۔ مگر وہ اب اگلا الیکشن تو ہرگز نہیں جیت سکتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے اور حالات کس نہج اور ڈگر پر ہوتے ہیں کسی کو نہیں معلوم۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک