''کیا آپ خاندانی قصائی ہیں؟''
''نہیں سر! میں آئی ٹی کا بندہ ہوں، مگر میں نے قصائی کا کام باقاعدہ سیکھا ہوا ہے۔'' میرے پوچھنے پر تیزی سے گوشت بناتے ہوئے اس نے جیسے ہی یہ جملہ کہا تو ساتھ بیٹھے بھائی چونک پڑے۔
''کیا کہا آپ نے، آئی ٹی کے بندے ہیں؟''
''جی سر! الحمدللہ میں ایک آئی ٹی کمپنی میں اچھی جاب کرتا ہوں۔'' اس نے حیران ہوتے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا، جو خود بھی ایک گورنمنٹ ادارے میں آئی ٹی آفیسر ہیں۔
''مگر پھر آپ اس فیلڈ میں کیسے آگئے؟''
''تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے جاب نہیں ملی تو وقت ضائع کرنے کے بجائے قصاب دوستوں کے مشورے پر میں نے ان کی دکان پر کام سیکھ کر قصائی کا کام کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد مجھے اپنی فیلڈ کی جاب مل گئی تو میں نے وہ کام ترک کردیا۔ اب عید کے موقع پر دوستوں کی مدد کرنے آجاتا ہوں۔''
وطن عزیز کے لاکھوں بیروزگار اگر تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سیکھ لیں تو ان کی حالت اس نوجوان کی طرح نہ ہو جس نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ کئی سال سے انٹرویوز اور درخواستیں دینے کے بعد نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب تو اس کے پاس تعلیمی اسناد کاپی کروانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ وطن عزیز میں بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈگری یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 31.2 فیصد تھی۔ اگر وطن عزیز میں طالب علم تعلیمی سفر کے دوران، گرمیوں کی چھٹیوں یا امتحانات سے فراغت کے بعد کوئی ہنر سیکھ لیں تو تعلیم سے فراغت کے بعد نوکری ڈھونڈنے کے دوران انہیں مالی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گئے وقتوں میں لوہار کا بیٹا لوہار ہوتا تھا، سنار کا بیٹا سنار، نائی کا بیٹا نائی اور کسان کا بیٹا کسان۔ الغرض کوئی ہنر چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا تھا، نوکری ملنے تک بچے باپ کے کام کے ماہر ہوجاتے تھے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ہمارے ہاں دیگر شعبوں میں گراوٹ آئی وہیں معاشرتی اقدار میں بھی ہم پستی کی جانب رواں دواں ہیں۔ ہم آج پلمبر، کارپینٹر اور دیگر شعبوں کو حقیر جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے ان شعبوں کا کام سیکھنے سے گریزاں ہیں۔ جبکہ یورپ میں ان شعبوں کو عزت دی جاتی ہے، وہاں ہنر کی قدر کی جاتی ہے۔ پلمبر، کارپینٹر کی اچھی تنخواہیں اور اچھے معاوضے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی گاڑی ہوتی ہے، ہاتھ میں جدید موبائل ہوتے ہیں۔ عصر حاضر کے جدید ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے وہ بہترین انداز میں خدمات سرانجام دے کر ایک اچھی اور خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔
جبکہ ہمارے ہاں ان شعبوں کی طرف پڑھے لکھے نوجوان آنے سے گریزاں ہیں۔ صرف وہی نوجوان ان شعبوں کو اختیار کرتے ہیں جو تعلیمی میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ضروری تعلیم کے بغیر ہنر محدود پیمانے تک فائدہ مند ہوتا ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان شعبوں سے وابستہ افراد جدید طریقوں کو اختیار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر تعلیم یافتہ افراد ہنر سیکھ لیں تو اس کے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ نہ صرف متعلقہ شخص بلکہ پورا معاشرہ ان ثمرات سے مستفید ہوتا ہے۔
اور آخر میں چند دلچسپ حقائق، امریکی ریاست میری لینڈ میں پلمبرز اینڈ اسٹیم فٹرز یونین کی جانب سے طالب علموں کو تعلیم کے دوران ہنر سکھائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے طلبا مالی طور پر خودمختار ہو جاتےہیں۔ روزگار کے حوالے سے 15 شعبے ایسے ہیں جن کےلیے تعلیم کے بجائے ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کی وجہ سے جہاں ایک طرف لاکھوں افراد کو روزگار نہیں ملتا، وہیں دوسری طرف بہت سے ملازمت دینے والے ایسے بھی ہیں جن کو مطلوبہ ملازم نہیں ملتا۔ اس لیے تعلیم ضرور حاصل کیجیے مگر فرصت کے اوقات، چھٹیوں کے لمحات، امتحانات سے فراغت کے بعد، فیس بک، واٹس ایپ پر ٹائم پاس کرنے کے بجائے ہنر بھی سیکھ لیجیے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔