دبئی کے حالات
ملاقات غیر اہم نہیں تھی۔ گفتگو بھی غیر اہم نہیں ہوئی ہوگی۔ لیکن فیصلے ممکن نہیں
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ دبئی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان ملاقاتوں میں ملک کے بڑے سیاسی فیصلے ممکن نہیں۔ لیکن دوست بضد ہیں کہ بڑے سیاسی فیصلے دبئی میں ہو رہے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر اگلا الیکشن نہیں لڑ سکتی ہیں۔ لیکن دوست بضد ہیں کہ دونوں کے درمیان اگلا لیکشن لڑنے پر بات چیت طے ہو گئی ہے۔میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ فی الحال دونوں ملک میں نگران حکومت کا نام فائنل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ لیکن دوست بضد ہیں کہ دبئی میں نگرانوں کے نام فائنل ہو رہے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ فی الحال صرف اس حکومت کے خاتمے تک اکٹھے چلنے کی بات ہے پھر دونوں نے اپنی اپنی سیاست کرنی ہے۔ لیکن ہمارے دوست بضد ہیں دونوں کو اکٹھے رکھنا ہے۔
یہ خبر بھی تسلسل سے آرہی ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ملک میں اگلے انتخابات کی تاریخ پر سخت اختلاف ہے۔پیپلزپارٹی فوری اور بروقت انتخابات چاہتی ہے جب کہ ن لیگ انتخابات میں تاخیر چاہتی ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ فیصلہ بھی ملک کی اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں جماعتیں کسی ایک تاریخ پر متفق بھی ہو جائیں جب تک اسٹبلشمنٹ اس تاریخ پر متفق نہیں ہوگی کچھ نہیں ہو سکتا۔ الیکشن بروقت ہونے ہیں یا تاخیر سے ہونے ہیں۔
یہ فیصلہ ابھی ان دونوں جماعتوں کے بس میں نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان دونوں کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ لیکن میرا موقف ہے کہ دونوں کا ضمنی کردار ہے۔ بڑا اور کلیدی کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔
اس وقت دونوں جماعتوں کی سیاست بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کی ہے۔ اس لیے دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر کے یا اس سے اختلاف کر کے کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو کسی بات پر غیر ضروری مجبور کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے میں ہی عافیت ہے۔
وہ ایسے کسی فیصلے پر کیوں بات کریں گے جہاں کلیدی رائے ان کی نہیں ہے۔ پھر وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر کیوں دیں گی کہ ہم دونوں آپ کو مائنس کر کے ملک کا کوئی منظر نامہ لکھ رہے ہیں۔ ایسا کوئی تاثر بھی دونوں کے لیے کافی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ وقت اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کا نہیں ہے۔ پھر کیوں ؟
یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی میں فیصلوں کی تمام طاقت زرداری اور بلاول بھٹو کے پاس ہے۔ اس لیے جب دونوں موجود ہیں فیصلہ سازی ممکن ہے۔ لیکن ن لیگ میں شہباز شریف کی ایک حیثیت ہے۔ وہ اس وقت ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں۔
ن لیگ کی اگلی گیم میں ان کا بہت کردار ہے۔ اس وقت شہباز شریف کو کسی بھی طرح مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں اگلی نگران حکومت کی بات ہو رہی ہے اور ملک کا وزیر اعظم ہی میٹنگ میں موجود نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگلیے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہو رہی ہو اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہی موجود نہ ہوں۔ وہ بے شک سب کام نواز شریف کی مرضی سے کرتے ہیں۔
لیکن نواز شریف بھی ہر موقع پر انھیں ساتھ رکھتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت شہباز شریف کو درمیان میں بٹھائے بغیر کوئی بڑے فیصلے ممکن ہیں۔ ان کی اہمیت سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں انکار نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر وہ دبئی میں موجود نہیں تھے تو آپ یقین کر لیں کہ فی الحال دبئی میں کوئی بڑے فیصلے نہیں ہو رہے۔ دوستوں کو یقین نہیں آرہا کہ لیکن میری رائے یہی ہے۔ اگر کسی بڑے فیصلے کا کوئی بھی امکان ہوتا تو شہباز شریف دبئی میں موجود ہوتے۔
اسی طرح ن لیگ کی سیاست میں اب مولانا فضل الرحمٰن کی بھی ایک اہمیت ہے۔ ن لیگ ان کے بغیر بھی بڑے فیصلے کیوں کرے گی۔جب معاملہ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ہوگا تو ن لیگ کی ترجیح مولانا فضل الرحمن ہونگے اگر واقعی کوئی بڑے فیصلے ہونے ہوتے تو مولانا فضل الرحمٰن کے دبئی جانے میں کوئی ممانعت نہیں تھی۔
اس بڑی اور اہم بیٹھک کے لیے وہ شہباز شریف کے ساتھ دبئی جا سکتے تھے۔ لیکن وہ نہیں گئے۔ مطلب کوئی بڑے فیصلے بھی نہیں ہوئے۔ لیکن مجھے علم ہے دوست کہیں گے کہ میں ایسے ہی کہہ رہا ہوں وہاں بڑے فیصلے ہوئے ہیں۔ مجھے علم نہیں۔ جب کہ دوستوں کی رائے میں جو ان بڑے فیصلوں کی تفصیل بتا رہے ہیں وہ زیادہ با خبر ہیں۔
بہر حال میں تو اپنی رائے دینے کا پابند ہوں۔ سیاست بنیادی منطق سے باہر نہیں۔ جو چیز بنیادی منطق میں نہ آئے وہ سیاست میں بھی نہیں آسکتی۔ کیونکہ یہ کھیل ایسا ہی ہے۔
میں اب بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ ابھی الیکشن سے قبل ملک میں کسی چارٹر آف پاکستان کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ چارٹر آف پاکستان اور چارٹر آف اکانومی اگلے انتخابات کے بعد نئی بننے والی اسمبلی میں ہوگا۔ ملک میں ایسے حالات نہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری دبئی میں بیٹھ کر کسی چارٹر آف پاکستان یا چارٹر آف اکانومی پر اتفاق کریں۔
جب چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا تھا تب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں جلا وطن تھے۔ لیکن آج نہ تو آصف زرداری جلا وطن ہیں اور نہ ہی نواز شریف اس طرح جلا وطن ہیں۔ اس لیے بیرون ملک بیٹھ کر ملک واپسی کی راہ ہموار کرنے کے کسی چارٹر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
اگلے انتخابات میں جو حکو مت بنائے گا وہی چارٹر کی بات کرے گا۔ اور باقی اس کے رویہ کو دیکھتے ہوئے چارٹر کریں گے۔
ابھی سے کیوں ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ پتہ نہیں انتخابات کے بعد کیا حالات ہونگے۔ ابھی سے کسی بھی قسم کا چارٹر کرنا نہ تو ن لیگ کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پیپلزپارٹی کے مفاد میں ہے۔ یہ کام اگلے انتخابات کے بعد ہی ہوگا۔ سب سیاستدانوں کو اس کی سمجھ ہے۔
ابھی کیا معلوم کے اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کس پوزیشن میں ہوگی۔ کیا وہ چارٹر میں ساتھ ہوگی ۔ پارلیمنٹ میں ہوگی۔ نہیں ہوگی۔ جب کچھ صاف نہیں تو طے بھی کچھ نہیں۔
آپ سوال کریں پھر ملاقات میں کیا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں خیر سگالی کی ملاقات تھی۔ بہت عرصہ سے آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس ملاقات کی ضرورت تھی۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان بھی پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد ایک فیصلہ چل رہا تھا ۔ اس لیے اس کے لیے بھی ملاقات ضروری تھی۔
ملاقات غیر اہم نہیں تھی۔ گفتگو بھی غیر اہم نہیں ہوئی ہوگی۔ لیکن فیصلے ممکن نہیں۔ دونوں نے حالات کا جائزہ لیا ہوگا۔
آپشن سامنے رکھے ہونگے۔ لیکن فیصلے پھر نہیں ہوئے ہونگے۔ اتفاق بھی ہو ا ہوگا۔ لیکن باقی اسٹیک ہولڈرز ان فیصلوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔ یہی طے ہوا ہوگا کہ باقی سے بات کر لیں۔ دیکھیں سب کیا کہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے پر اتفاق ہوگا۔ دونوں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ لیکن انتخابات اکٹھے نہیں لڑ سکتے۔ یہ بات دونوں کو معلوم ہے۔ اسی لیے دونوں نے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا ہوگا۔