کراچی انتظامیہ کی پراسرار خاموشی

کراچی کے کسی انتظامی افسر نے دودھ کے سرکاری نرخ پر عمل کرایا اور نہ ہی دلچسپی لی


Muhammad Saeed Arain July 06, 2023
[email protected]

کراچی میں ڈیری مافیا نے دودھ فی لیٹر مزید بیس روپے مہنگا کردیا جس سے سرکاری اور غیر سرکاری قیمت کا فرق بڑھ کر پچاس روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا۔ شہر میں دودھ دو سو دس سے بڑھ کر دو سو تیس روپے فروخت ہونے لگا۔

شہری انتظامیہ اور حکومت خاموش تماشائی، ڈیری مافیا ایک لیٹر دودھ پر پچاس روپے کا غیر قانونی منافع کمانے لگی۔ یومیہ 25 کروڑکا غیر قانونی منافع ہول سیلر اور ڈیری فارمرز مافیا وصول کرنے لگی جب کہ کراچی انتظامیہ چند روز کی کارروائی کے بعد عوام کو ڈیری مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ شہریوں کے مطابق بیوروکریٹس ودیگر اس کاروبار میں حصہ دار ہیں جس کی تصدیق خود ڈیری فارما سیکٹر نے بھی کردی ہے۔

روزنامہ ایکسپریس میں نمایاں طور پر شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کراچی انتظامیہ اور حکومت سندھ کے متعلقہ افسران کی باہمی ملی بھگت سے کراچی میں یومیہ 50 لاکھ لیٹر دودھ کی فروخت سے 25 کروڑ روپے کی غیر قانونی منافع خوری کی جا رہی ہے اور کمائی گئی رقم کے بل بوتے پر قانون کی دھجیاں بکھیر رہی ہے اور دیدہ دلیری سے ازخود دودھ کی قیمت میں اضافہ کر کے سالوں سے شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے اور ان سے 180 روپے کے سرکاری ریٹ سے پچاس روپے فی لیٹر زائد قیمت وصول کی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق شہریوں کا کہنا ہے کہ دودھ کی قیمت کے معاملے پر کراچی کی انتظامیہ ہمیشہ اپنے سرکاری نرخ پر عمل کرانے میں ناکام رہی ہے اور ڈیری مافیا ہمیشہ کامیاب رہی ہے اور انتظامیہ اپنی چند روزہ دکھائوے کی کارروائی کے بعد ڈیری مافیا کی مقررہ قیمت تسلیم کرلیتی ہے اورکارروائی روک دیتی ہے جس کے کچھ عرصے بعد ڈیری مافیا پھر نئی قیمت مقرر کرکے غیر قانونی منافع بڑھا دیتی ہے اور کراچی انتظامیہ کی بے بسی، نااہلی اور پراسرار خاموشی کے باعث شہری دودھ فروشوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور ڈیری مافیا کو اس سلسلے میں کھلی چھٹی اس لیے ملی ہوئی ہے کہ ان کے مطابق بااثر سیاسی شخصیات اور کراچی انتظامیہ کے کارندے دودھ کے اس غیر قانونی اور منافع بخش کاروبار کی سرپرستی کر رہے ہیں جب کہ اعلیٰ پولیس افسران سے لے کر بیورو کریٹس تک اس کاروبار میں حصہ دار ہیں۔

اسی وجہ سے آئے دن دودھ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور چند روزہ نمائشی کارروائی کے بعد شہریوں کو ڈیری مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس چشم کشا رپورٹ نے شہر میں ڈیری مافیا کی لوٹ کھسوٹ کو بے نقاب کردیا ہے جب کہ حقائق یہ ہیں کہ یومیہ 50 لاکھ لیٹر دودھ کی فروخت سے 25 کروڑ روپے کا غیر قانونی منافع کمانے والے ہول سیلر اور ڈیری فارمرز حکومت کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ہمیشہ بھینسیں اور ان کی خوراک کے ساتھ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے مہنگے پٹرول و ڈیزل کا رونا روتے ہیں اور من چاہا اضافہ کرتے ہیں اور کراچی انتظامیہ آج تک شہر میں سرکاری نرخوں پر دودھ کی فروخت ممکن نہیں بنا سکی ہے۔

شہری انتظامیہ کے آفس میں اس سلسلے میں دکھاوے کے اجلاس ضرور ہوتے ہیں اور کراچی کے کسی انتظامی افسر نے دودھ کے سرکاری نرخ پر عمل کرایا اور نہ ہی دلچسپی لی بلکہ مہینوں کوئی اجلاس بھی نہیں ہوتا۔

لاہور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں دودھ اور دہی کی کھپت تقریباً کراچی کے برابر ہے اور وہاں دہی بھی کراچی کے مقابلے میں زیادہ استعمال اور فروخت ہوتا ہے مگر لاہور میں دودھ علانیہ معیاری قرار دے کر فروخت کیا جاتا ہے اور پیشکش کی جاتی ہے کہ دودھ میں ملاوٹ ثابت کرنے پر جرمانہ دیا جائے گا۔

لاہور میں گرمی کے موسم میں دودھ دہی کی کھپت بہت بڑھ جاتی ہے اور دودھ دہی جلد فروخت ہو جاتے ہیں اور وہاں کراچی کی طرح رات گئے تک دودھ دہی دکانوں پر فروخت نہیں ہوتے جس کی وجہ سے لوگوں کو دودھ دہی جلد خریدنا پڑتا ہے اور حیرت انگیز طور پر لاہور میں معیاری دودھ 170 روپے لیٹر اور دہی 180 روپے کلو دستیاب ہے اور وہاں دودھ فروش کراچی کی طرح من مانے نرخ وصول نہیں کرتے۔

لاہور میں دودھ فروشوں کی دکانوں پر چیلنج دے کر اعلانیہ دودھ فروخت ہوتا ہے اور ان کی دکانوں پر دودھ کی فروخت کے ساتھ صرف دہی اور لسی فروخت ہوتی ہے اور ڈبل روٹی اور انڈے بیکریوں یا پرچون دکانوں پر ملتے ہیں مگر کراچی کے دودھ فروشوں کا پیٹ لاہور سے 60 روپے لیٹر مہنگا دودھ فروخت کر کے بھی نہیں بھرتا اور کراچی میں دودھ فروشوں کی دکانوں پر دودھ دہی کے علاوہ ڈبل روٹی، بند، انڈے عام فروخت ہوتے ہیں جن کو مہنگا فروخت کرکے وہ علیحدہ کماتے ہیں۔

انڈہ فارما ایسوسی ایشن کے اخباروں میں اشتہار لگے ہیں کہ انڈے کی قیمت 20 روپے ہے مگر دودھ کی دکانوں پر بائیس روپے میں انڈہ فروخت ہو رہا ہے۔ کراچی میں دودھ فروشوں کی چھوٹی بڑی دکان پر دودھ کے معیاری ہونے کا کوئی ذکر نہیں اور ہر علاقے میں دودھ ایک سو ساٹھ سے دو سو تیس روپے لیٹر کے اعلانات ضرور لگے ہیں، کراچی میں دودھ کی ایک مخصوص نام کی دکانوں پر سب سے مہنگا مگر یکساں نرخ پر دودھ فروخت ہوتا ہے مگر ان نامور دکانوں پر بھی دودھ کے معیار کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔

کراچی انتظامیہ نے مختلف نرخوں پر دودھ فروخت کرنے کی کبھی وجہ نہیں پوچھی جو ظاہر ہے برف اور پانی کی ملاوٹ کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے مگر دودھ کا معیار چیک کرنے والا کوئی نہیں سب ادارے خاموش ہیں اور ماہانہ بھتہ لے کر معیار چیک نہیں کرتے۔

کراچی میں دودھ دو سو تیس روپے لیٹر ہونے کے بعد دہی کی قیمت بڑھا کر تین سو روپے کلو کردی گئی ہے اور بعض دکانوں پر دہی دو سو روپے سے تین سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہے مگر کراچی انتظامیہ نے کبھی دہی کی سرکاری قیمت ہی مقرر نہیں کی اس لیے کراچی میں دودھ کی طرح دہی بھی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور ڈیری مافیا کراچی والوں کو لوٹ کر پنجاب میں جائیدادیں بنا رہی ہے۔

کراچی انتظامیہ سو فیصد مہنگے دودھ کی فروخت کی ذمے دار ہے اور ایکسپریس کی رپورٹ درست ہے کہ باہمی ملی بھگت سے ہی کراچی میں سب سے مہنگا دودھ اور دہی فروخت ہو رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں