نریندر مودی کی امریکا یاترا
مودی کی اِس سرکاری امریکا یاترا کے دوران نہ صرف اُن کا فقید المثال سواگت کیا گیا بلکہ بیشمار عنایات کی بارش بھی کی گئی
بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی غیر معمولی اہمیت کی حالیہ امریکا یاترا کے پوری دنیا میں چرچے ہو رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اِس پر کوئی خاص روشنی نہیں ڈالی جارہی اور سیاسی قیادت نے اِس پر چُپ سادھی ہوئی ہے جو ناقابلِ فہم ہے۔
اِس پر غالبؔ کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
مصلحت کچھ تو ہے جو ہم چپ ہیں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مودی کی اِس سرکاری امریکا یاترا کے دوران نہ صرف اُن کا فقید المثال سواگت کیا گیا بلکہ بیشمار عنایات کی بارش بھی کی گئی۔ جہاں تک ماضی میں امریکا پاک دوستی کا سوال ہے اِس کے بارے میں اِس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
پاکستان کو جب بھی کوئی مشکل وقت درپیش ہوا تو اُس نے پاکستان کو ہری جھنڈی دکھا دی۔ 1971 کے معرکہ کو ہی لے لیجیے جب پاکستان پر آسماں ٹوٹ رہا تھا۔ امریکا نے پاکستان کو بار بار یہ یقین دہانی کرائی کہ گھبراؤ مت ہمارا چھٹا بحری بیڑا تمہاری مدد کو پہنچ رہا ہے لیکن اِس بیڑے کو نہ تو پہنچنا تھا اور نہ ہی یہ پہنچا تاآنکہ پاکستان ٹوٹ گیا۔
مودی کی حالیہ امریکا یاترا کی غیر معمولی کامیابی کا اندازہ اِس بات سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے لیے جو بائیڈن نے نہ صرف وائٹ ہاؤس کے دروازے بلکہ اپنے دل کے دروازے بھی کھول دیے اور اُن کی راہ میں اپنی پلکیں بھی بچھا دیں۔
وائٹ ہاؤس میں جو سماں تھا اِس سے پہلے ایسا سماں کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ہر طرف شادیانے بج رہے تھے اور امریکی انتظامیہ خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھی۔جیسا کہ توقع کی جارہی تھی امریکی حکومت نے بھارت کے ساتھ چند اہم دفاعی معاہدے اور سمجھوتے کیے۔ اِن معاہدوں اور سمجھوتوں کے تحت امریکا بھارت کو جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔
ایک وقت وہ بھی تھا جب امریکا نے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور اب صورتحال اِس کے بالکل برعکس ہے اور امریکا بھارت کو جدید ترین ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ امریکا نے مودی جی سے بڑے پیار سے کہا ہے کہ '' لے لو جو لے جانا ہے بس معاہدہ کر لیجیے۔''
آئیے! ہم آپ کو بتائیں کہ یہ صورتحال کیسے اور کیوں پیدا ہوئی؟ ہوا یہ کہ امریکا کے وزیرِ دفاع لائڈ اوسٹن نے اِس ماہ کے شروع میں بھارت کا دورہ کیا اور بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے مذاکرات کیے جن کے دوران مختلف موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیالات کیا گیا۔
اِن مذاکرات کے دوران دونوں وزراء نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا۔اِس لیے ہم باآسانی یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ امریکی وزیرِ دفاع کو یہ اندازہ کرنا تھا کہ جب 22 جون کو بھارت کے وزیرِ اعظم امریکا کے سرکاری دورے پر آئیں اُس وقت دفاعی معاہدہ کرنے میں کوئی پس و پیش نہ ہو۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت کے ساتھ معاہدے امریکا کے لیے کیوں ضروری ہیں؟ امریکی صدر کا خیال یہ ہے کہ اِن معاہدوں سے امریکی معیشت کو تقویت پہنچے گی۔بھارت کو بھی اِس چال کا بخوبی اندازہ ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے امریکا جیسا طاقتور ملک بھارت کے ساتھ اِس حد تک جانے کو بے قرار ہے۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت کی اہمیت کیا ہے۔
بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ سوچ مشترک ہے کہ دونوں کا مفاد اِسی میں ہے۔ معاہدے کے تحت جو کچھ طے پایا ہے وہ انتہائی خفیہ اور صیغہ راز میں ہے جس کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑسکتی۔