کرکٹ ڈپلومیسی وقت کی ضرورت
دنیا میں جدید ڈپلومیسی دشمن ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کی راہ دکھاتی ہے
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ورلڈ کپ کے میچوں کے شیڈول کا اجراء کیا ہے۔ اس شیڈول کے تحت پاکستان، بھارت کے خلاف 15اکتوبر کو بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں کھیلے گا۔ اس طرح پاکستان کو بھارت کے ایک اور شہر کلکتہ میں زمبابوے کے خلاف اور پھر دو کوالیفائنگ میچز حیدرآباد دکن میں کھیلنے ہونگے۔
کرکٹ ورلڈ کپ کے بارے میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے کرکٹ کنٹرول بورڈ کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے شہر احمد آباد میں میچ کے انعقاد پر اعتراض ہے۔ احمد آباد میں 2002 میں ہونے والے فسادات میں تقریباً ایک ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ پاکستان نے ممبئی میں میچ کھیلنے سے انکار کیا تھا۔ اس بناء پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کلکتہ میں میچ کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے کرکٹ کنٹرول بورڈ کے ترجمان کا مؤقف ہے کہ پاکستانی ٹیم کے دورہ بھارت کے بارے میں حتمی فیصلہ حکومت پاکستان کرے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے جب بھارتی آئین میں دی گئی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا تو پاکستان نے بھارت سے تعلقات سفارت کاری کی نچلی سطح تک محدود کر دیے تھے، پاکستان نے بھارت سے تجارت تقریباً ختم کر دی تھی۔
ریل اور فضائی راستوں سے روابط بھی ختم ہوگئے تھے مگر عمران خان کی حکومت کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ کو تبدیل نہ کرسکی۔ امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ مسلمان ممالک نے بھی بھارت سے قریبی تعلقات قائم کر لیے۔ پاکستان کے قریبی دوست ملک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرمایہ کاری کی۔
بھارت سے تعلقات کو نچلی سطح تک محدود کرنے کے زیادہ نقصانات پاکستان کو ہوئے۔ بھارت سے کم قیمت ادویات اور ادویات کی تیاری کا سستا خام مال درآمد ہوتا تھا جو سب بند ہوگیا۔ سابقہ حکومت کو کچھ احساس ہوا تو جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی اجازت دی۔
بھارت سے صرف شعبہ صحت میں تجارت بند ہونے سے ملک میں کتے کے کاٹنے کے مرض کی روک تھام کی ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی۔ بھارت سے کمپیوٹر کے آلات اور ٹیکسٹائل و شوگر انڈسٹری کے فاضل پرزہ جات کے علاوہ ہیوی مشینری وغیرہ کی درآمد کی جاتی تھی اور جب بھی غذائی اجناس کی قلت ہوتی تھی تو بھارت سے دالیں، چاول، سبزیاں اور پھل آسانی سے دستیاب ہوتے تھے۔
معاشیات سے متعلق ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافی اشرف خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا خاصا زرمبادلہ چائے کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔ بھارت سے چائے درآمد کی جائے تو چائے کا درآمدی بل تقریباً آدھا ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے برانڈڈ کپڑوں کی بھارت میں مارکیٹ بن رہی تھی۔ پاکستان میں کھجور کی مختلف اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ کھجور کی ان اقسام کی بھارت میں بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے۔
پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اخباری کاغذ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کی بناء پر اخبار اور کتابوں کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ بھارت سے کاغذ کی درآمد سے قیمتوں میں استحکام ہوسکتا ہے۔ ایک طرف پاکستان کو بھارت سے تجارت محدود کرنے پر خسارہ کا سامنا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دنوں امریکا کا دورہ کیا۔
مودی اور امریکی صدر بائیڈن نے ملاقات کے بعد پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا اور دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کو سخت کرنے پر زور دیا جب کہ اس کے ساتھ امریکا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ ان کمپنیوں میں گوگل، امیزون اور مائیکرو سوفٹ شامل ہیں۔ گوگل کا شمار ٹیکنالوجی کی اہم کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ گوگل 50 ممالک میں کام کرتی ہے۔ اسی طرح مائیکرو سوفٹ کے دنیا کے 28 ممالک میں 11500 اسٹورز اور 63 سینٹرز قائم ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان امریکی کمپنیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے بھارت کی معیشت مزید مستحکم ہوگی اور دنیا کی دیگر کمپنیاں بھی بھارت میں سرمایہ کاری کریں گی۔ بھارت میں امریکا کے علاوہ ہالینڈ، جاپان، برطانیہ اور جرمنی کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارت کی مڈل کلاس جس کا سائز 432 ملین ہے۔
وکی پیڈیا پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر تین افراد میں سے ایک مڈل کلاس ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق بھارت میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے فرد کی آمدنی کم سے کم 15 لاکھ سے 75 لاکھ روپے سالانہ ہے، یہ مڈل کلاس اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس کی قوتِ خرید دنیا بھرکی کمپنیوں کے لیے باعثِ کشش ہے۔
جدید بھارت کے بانیوں پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور ڈاکٹر من موہن سونگھ کی پالیسیوں کی بناء پر بھارت دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے جس کی معیشت کا سائز 3.74 Trillion ڈالر ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی کو بھارت کی سیکولر حیثیت کو تبدیل کرنے اور مذہبی ریاست میں تبدیلی کرنے کی کوشش سے بھارت کی ترقی متاثر ہورہی ہے مگر مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دانشوروں کی مزاحمتی تحریک جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانچ کے قریب چھوٹے بڑے معرکے ہوچکے ہیں۔جن میں اربوں ڈالر کا اسلحہ پھونکنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا، معاملات دو طرفہ مذاکرات پر ہی ٹھہرے۔ پاکستان اس وقت ماحولیاتی تباہی کا شکار ہے۔ گزشتہ سال سیلابوں اور بارشوں نے ایک تہائی پاکستان میں تباہی مچائی۔ ماحولیات کی تباہی کو روکنے کے لیے پڑوسی ممالک کا تعاون اشد ضروری ہے۔
دنیا میں جدید ڈپلومیسی دشمن ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کی راہ دکھاتی ہے۔ چین اور بھارت میں سرحدی تنازعات موجود ہیں مگر بین الاقوامی تجارت سے متعلق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان گزشتہ 5 برسوں میں تجارت میں 29 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کی درآمدات میں سے 15.4 فیصد حصہ چین کا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن Anthony Blinken نے بیجنگ کا دورہ کیا اور چین کے وزیر خارجہ Qin Gang سے مذاکرات کیے، چین اس وقت امریکا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹی ہے۔ صرف ایک سال کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 559.2 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجارت سے زیادہ فائدہ امریکا کا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر بائیڈن نے وزراء خارجہ کی ملاقات کے فوراً بعد چین کے صدر کو ڈکٹیٹر قرار دیا مگر دونوں ممالک کے روزمرہ کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کے بارے میں پریس کانفرنس میں بھارت اور ترکی کا ذکر بھی کیا۔ بھارت نے 90ء کی دہائی میں آئی ایم ایف کو رخصت کردیا تھا۔ شہباز شریف اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے مگر اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ پڑوسی ممالک سے تعلقات معمول کے مطابق ہوں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا گوا کا دورہ ایک مثبت قدم تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھارت کا دورہ کرنا چاہیے اور ایک دفعہ پھر کرکٹ ڈپلومیسی کو استعمال کرنا چاہیے۔