کمزور بزدل اور مظلوم عالمِ اسلام
اگرعالمِ اسلام کے حکمران بزدل اورکمزور نہ ہوتے توسویڈن اور دیگرمغربی ممالک کوایسی حرکت کرنے کی کبھی جرأت نہ ہوتی
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے متفقہ فیصلے اور اپیل پر آج 7جولائی 2023 کو ملک بھر میں یومِ تقدیسِ قرآن کا انعقاد ہو رہا ہے ۔ یہ نہائت مستحسن فیصلہ ہے۔
مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کا بھی تقاضا ہے کہ پاکستان ہی کا نہیں بلکہ عالمِ اسلام کا ہر فرد یومِ تقدیسِ قرآن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ تقریباًآٹھ دن قبل مغربی ملک، سویڈن، کے دارالحکومت، اسٹاک ہوم، کی مرکزی جامعہ مسجد کے سامنے ایک بد بخت نے سویڈش پولیس کی موجودگی میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔ اِس مذمتی اقدام سے دُنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہُوئی ہے۔
ٹھیک کہا ہے امیر جماعتِ اسلامی ، جناب سراج الحق نے، کہ سویڈن نے اِس دل آزار حرکت سے 2 ارب مسلمانوں کے دل جلائے ہیں۔ عالمی اور سویڈش میڈیا کے مطابق عید الاضحی کے ایام میں سویڈن میں یہ توہین آمیز اور دل آزار حرکت کرنیوالے سیاہ رُو کا نام سلوان مومیکا ہے۔ 37سالہ یہ شخص سابق عراقی ہے اور ملحد ہو چکا ہے ۔ پانچ سال قبل یہ بد بخت عراق سے سویڈن چلا گیا تھا ۔
افسوس کی بات ہے کہ سویڈش حکومت کے ساتھ ساتھ ''ناٹو'' کے سربراہ نے بھی سلوان مومیکا کی اِس دل آزار حرکت کی مذمت کرنے کی بجائے اِسے ''آزادی اظہار'' کا نام دیا ہے ۔ سویڈن اِس وقت ''ناٹو'' کا رکن بننے کی کوشش میں ہے ؛ چنانچہ اِسی پس منظر میں ترکیہ کے صدر اور وزیر خارجہ نے بجا کہا ہے کہ ''سویڈن نے قرآن مجید کی بیحرمتی کرکے ناٹو کا رکن بننے کی اہلیت کھو دی ہے۔ اگر اس کے باوجود اُس نے رکن بننے کی کوشش کی تو ہم اس کی ہر فورم پر مخالفت کریں گے۔''
سویڈن کی حرکت پر فوری طور پر اگلے روز ''او آئی سی'' کا اجلاس بھی ہُوا ہے۔ اس میں عالمِ اسلام کے ہر رکن ملک نے سویڈن میں ہونے والے اس اسلام مخالف سانحہ کی مذمت کی ہے ۔ ''او آئی سی'' کا اِس ضمن میں جو اعلامیہ اور اعلان سامنے آیا ہے، اس کی جزئیات سامنے رکھی جائیں تو واضح ہوتا ہے کہ اِس میں مغربی قوتوں کو للکارنے والا طاقتور عنصر سرے سے مفقود ہے ۔ ایسے پھسپھسے بیان کی موجودگی میں سویڈن ٹس سے مس بھی نہیں ہُوا۔
اگر عالمِ اسلام کے حکمران بزدل اور کمزور نہ ہوتے تو سویڈن اور دیگر مغربی ممالک کو ایسی حرکت کرنے کی کبھی جرأت نہ ہوتی ۔جب عالمِ اسلام کے کرپٹ حکمران اپنی دولت ، اولادیں اور جائیدادیں مغربی ممالک میں رکھیں گے تو مغربی ممالک اِن کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کر دھڑلّے سے اسلام مخالف حرکات کا ارتکاب کرتے رہیں گے ۔
''او آئی سی'' اور ''عرب لیگ'' اور دیگر کئی عالمی اسلامی اداروں اور تنظیمات کی جانب سے مغربی ممالک میں اسلام مخالف دل آزار حرکات کے خلاف آواز بلند کرنے اور احتجاجات کے باوجود مغربی ممالک اور امریکا میں اسلام مخالف قوتیں باز نہیں آ رہیں۔ سویڈن میں قرآن مجید کی بیحرمتی کے تازہ ترین سانحہ پر بھی مذکورہ بالا عالمی اسلامی اداروں نے زبانی اور تحریری طور پر سویڈن کی مذمت کی ہے لیکن سویڈن کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی ۔ وہ بدستور اِس دل آزار حرکت کو ''فریڈم آف ایکسپریشن'' کا نام دیے جا رہا ہے۔
یہ لاپرواہی اس لیے ہے کہ امریکا و مغربی ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ عالمِ اسلام اور سبھی مسلمان حکمران کمزور اور بزدل بھی ہیں اور ہمارے محتاج بھی۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ مسلمان حکمران اپنی کمزوریوں اور بزدلیوں کے کارن اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ گزشتہ ایام میں جب فرانس میں اسلام مخالف، دل آزار اور توہین آمیز کاٹون شائع ہُوئے تو عالمِ اسلام میں غم و غصہ کی بجا لہریں اُٹھیں۔ مسلمانوں نے اجتماعی طور پر فرانسیسی حکومت اور صدر کے خلاف نعرے لگائے اور زبردست احتجاجات کیے۔
کئی مسلمان ممالک نے فرانس کا سیاسی ، سفارتی اور تجارتی مقاطع بھی کیا۔ مگر بعد ازاں ہُوا کیا؟ کچھ بھی نہیں ۔ ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ کئی معروف مسلمان ممالک کے حکمران فرانسیسی صدر کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کرتے ہُوئے فرانس کے ساتھ ہم قدم نظر آ رہے ہیں۔ اسلامی شعائر کی توہین کرنے والوںکے ساتھ مگر یہ محبتیں اور تعاون چہ معنی دارد؟
مغربی ممالک میں بروئے کار چند مفسد قوتیں اس لیے بھی اسلام مخالف حرکات سے باز نہیں آ رہیں کہ مغربی ممالک جانتے ہیں کہ اسلامی ممالک اور مسلمان حکمرانوں میں اتحاد اور یکجہتی کا فقدان ہے۔ ابھی وہ دن زیادہ دُور نہیں گئے جب ایک مسلمان حکومت نے دوسری مسلمان حکومت پر حملہ کر دیا تھا۔ اس لڑائی میں مسلمان فریقین کے ہزاروں مسلمان فوجی مارے گئے۔ ہزاروں اپاہج ہو گئے۔ ابھی چند دن پہلے دو مشہور مسلمان ممالک نے 7سال بعد ایک دوسرے سے سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں ۔ ان دونوں کی صلح بھی ایک غیر اسلامی ( بلکہ لا مذہبی ) ملک نے کرائی۔ اور ابھی 5 جولائی 2023کو عالمی میڈیا نے خبر دی ہے کہ 10سال بعد ترکیہ اور مصر کے سفارتی ، سیاسی اور تجارتی تعلقات بحال ہُوئے ہیں۔
اسلامی سوڈان میں پچھلے ایک ماہ سے دو متحارب گروہ ایک دوسرے کا بیدردی سے خون بہا رہے ہیں۔اور اِنہیں شرم بھی نہیں آرہی۔ جب اسلامی ممالک اور مسلمان حکمرانوں میں ایسا افسوسناک بلکہ المناک عدم اتحاد ہوگا تو اسلام مخالف و طاغوتی قوتیں مسلمانوں کی دل آزاری کرنے میں شیر ہو جائیں گی۔ عالمِ اسلام اپنی بزدلی، محتاجی اور کمزوری کے باعث ان طاغوتی اور شیطانی قوتوں کو طاقت سے روکنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ زبانی جمع خرچ البتہ خوب ہو رہے ہیں ۔
عالمِ اسلام مظلوم نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے عوام مظلوم ہیں۔ اِن پر سفاک، خود غرض اور استحصالی حکمران مسلط ہیں۔ عالمِ اسلام کے حکمران طبقات اور عوام میں بے حد فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ اِنہی فاصلوں کا بروقت فائدہ اُٹھا کر امریکا نے عراق پر حملہ کرکے اسے تباہ کردیا، اس حملے میں عراقی مسلمانوں کا گروپ بھی امریکا کا شریک کار تھا، امریکا نے اسی گروپ کو عراق کا اقتدار سونپا، اس حکومت نے عراقی صدر ، صدام حسین، کو نام نہاد کیس چلا کر پھانسی پر لٹکا دیاتھا۔
عالمِ اسلام مگر اِس ظلم و زیادتی پر ایک لفظ بھی بطورِ صدائے احتجاج بلند نہ کر سکا۔ صدام حسین کے دونوں بیٹوں کو بیدردی سے امریکی فوجیوں نے مار ڈالا۔ شائد یہ قدرت کی جانب سے اُن مظالم کی سزا تھی جو صدام حسین کے دونوں بیٹے غریب عراقی عوام پر برسوں سے ڈھاتے آ رہے تھے۔کیا قدرت نے امریکی فورسز کی شکل میں عراقی حکمرانوں اور اُن کی آل اولاددں سے ظلم کا حساب لیا تھا؟ یہی حال لیبیا کے مطلق حکمران، کرنل قذافی، کے ساتھ امریکا نے کیا۔ قذافی کی ساری اولاد آج ذلیل اور خجل خوار ہو رہی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ لیبیا اور عراق کے مذکورہ حکمرانوں کا احتساب وہاں کے عوام کرتے مگر عوام بیچاری کا تو حکمرانوں نے گلہ ہی گھونٹ دیا تھا ۔ ایسے میں لیبیا کے کرنل قذافی کی لاش اگر بے حرمت ہو کو گٹر سے ملی تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ اگر عالمِ اسلام کے حکمران اسلام مخالف قوتوں کو اُسی لہجے میں نہیں للکاریں گے جس لہجے میں امریکا و مغربی ممالک نے اُسامہ بن لادن کے مسئلے پر اور عراقی و لیبیائی صدور کو للکارا تھا، تب تک مغربی ممالک میں اسلام مخالف ایسی دل آزار حرکات ہوتی رہیں گی ۔