استحکام کی باری ہے
سب سے بڑی بات تو ان کے لفظ ’’ بازی گر‘‘ میں ہے اوردوسری بڑی بات لفظ دھوکا میں ہے
مرشد کی ویسی تو ہر بات سو باتوں کے برابر ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی ایسی بات بھی کہہ جاتے ہیں جس کی ایک بات سو باتوں، سو باتیں ہزار اورہزار باتیں لاکھ باتوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے ، یہاں تو بات ''کواکب'' کی ہے جن کی تعداد ان گنت ہے ۔ فرماتے ہیں۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھو کا یہ ''بازیگر''کھلا
سب سے بڑی بات تو ان کے لفظ '' بازی گر'' میں ہے اوردوسری بڑی بات لفظ دھوکا میں ہے۔ کواکب ستاروں کو کہتے ہیں، یہ ستارے چاہے آسمان کے ہوں یا زمین کے ، سب کواکب ہیں۔ آسمان کے ستاروں کو تو ہم ایک طرف کردیتے ہیں کیونکہ ان میں ایسے ایسے ستارے بھی ہیں جو ہزاروں سال پہلے عدم پتہ ہوچکے ہیں لیکن زمین والوں کو دکھائی اب بھی دے رہے ہیں، مطلب یہ کہ آسمان کے ستارے ہمیشہ سے دھوکے باز تھے، دھوکے بازہیں اوردھوکے باز رہیں گے۔
اپنے عاملوں ،کاملوں اور نجومیوں کی طرح۔ اس لیے ہم صرف زمین کے ستاروں کی بات کریں گے جو دو اقسام کے ہوتے ہیں، ایک فلمی ستارے اور دوسرے '' جلمی'' ستارے جن کو سیاسی ستارے بھی کہتے ہیں ۔ فلمی ستاروں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ تو کھلے عام ''کوے'' ہوکر بگلے بن جاتے ہیں، فلم اسکرین پر جو چندے آفتاب، چندے مہتاب نظر آتے ہیں، اصل میں کوے اور توے ہوتے ہیں اورپھر پڑوسی ملک کے ماہرین نے تو کوئی ایسا ''مسالہ'' ایجادکیا ہے کہ اگر ٹینس کی ولیم سسٹرز کو بھی لگایاجائے تو انجلیناجولی اوراسکارٹ جانس نظر آئیں گی۔
کافی عرصے کی بات ہے، ہم کابل میں تھے، اچانک خوشخبری ملی کہ ایک ہندی فلم کی شوٹنگ باغ بالا کے مقام پر ہورہی ہے اورشوٹنگ بھی ہیمامالنی کی ، جو ان دنوںڈریم گرل کہلاتی تھی، ہم بھی اپنے بارسوخ میزبان کی مدد سے مقام شوٹنگ تک پہنچ گئے ، کافی انتظار کے بعد غلغلہ ہوا، ہمامالنی پہنچ چکی ہے ،اتفاق سے ہم قریب ہی تھیاور دیکھا، ایک کلوٹن گاڑی سے اتری اور ایک ٹینٹ میں چلی گئی، رنگ گندمی بھی نہیں بلکہ چھلکے سمیت ''چنے'' جیسا تھا لیکن گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ٹینٹ سے نکلی تو لگا جیسے کسی نے اس کے ہر ہرعضو میں ہزار واٹ کے بلب روشن کیے ہوں لیکن ان فلمی ستاروں کو بھی گولی مارئیے۔
بات سیاسی ستاروں کی کرتے ہیں جو اس وقت سارے ''ٹوینکل ٹوینکل'' کر رہے ہیں ،ان ستاروں کی دھوکا بازی تو ایک طرف بازیگری بھی کمال کی ہے، اچانک کہیں سے ابھرآتے ہیں لیکن ابھی پوری طرح اپنی چمک بھی دکھا نہیں پاتے، اچانک غروب ہوجاتے ہیں، گویا طارق سے تاریک ہوجاتے ہیں ۔
نہ ہنسوہم پہ زمانے کے ہیں ٹھکرائے ہوئے
در بدر پھرتے ہیں تقدیرکے بہکائے ہوئے
کتنے آئے، چمکے چمکے اورچاند بننے سے پہلے ''ماند'' ہوگئے بلکہ بعض تو سورج بنتے بنتے رہ گئے۔ مولانا کوثر نیازی کو اﷲ ان کے تمام اعمال کا اجر عطا فرمائے، انھوں نے بھٹو کے بارے میں فرمایاتھا کہ وہ سورج ہے اورہم تارے۔لیکن پھر ''راہو''ان سب کو نگل گیا۔
راہو کا قصہ ہندی دیو مالا میں یوں ہے ، جب دیوتائوں میں امرت (آب حیات) تقسیم ہورہاتھا تو راہو جو اصل میں اسود(دیوتائوں کا دشمن) تھا وہ بھی دیوتائوں کا بھی سدھارن کرکے قطار میں بیٹھ گیا تھا اورجب وہ آب حیات پینے والا تھا تو چانداور سورج نے اسے پہچان کر شورمچایا،امرت ابھی اس کے گلے میں پہنچا ہی تھا کہ وشنو بھگوان نے اپنا ''سدرشی چکر'' مارکر اس کاگلا کاٹ دیا، یوں راہو کا جسم تو مٹی ہوگیا لیکن سر اور گلا امرت پینے کی وجہ سے امر ہوگیا، چاند سورج نے اس کا پول کھولا تھا، اس لیے اب وہ اس کادشمن ہوگیا، جب بھی موقع ملتا ہے، وہ چاند یا سورج کو نگل لیتا ہے لیکن چونکہ اس کاگلا کٹا ہوا ہے، اس لیے وہ دوسری طرف نکل جاتے ہیں لیکن تھوڑی دیر کے لیے چاندگرہن یا سورج گرہن ضرور ہوتاہے۔
یہی حال ہمارے ستاروں، سیاروں یا چاند سورج کا بھی ہے، دائیں طرف سے اگر ان کو گرہن لگ جاتاہے تو بائیں طرف سے نکل آتے ہیں ۔ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی مثل یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے ۔
زیادہ دنوں کی بات نہیں کہ کرکٹ کے آسمان سے ایک تارہ ٹوٹا اورسیاست کے فلک پر سورج بن گیا، نہ صرف خود خورشید عالم تاب بنا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنا الگ ''نظام شمسی'' بھی بناڈالا، یہاں وہاں جتنے بھی چاند سورج ''راہو'' کے گلے سے نکلے، وہ بھی اس کے گرد اپنے اپنے مدار قائم کرکے گھومنے لگے اور اتنے چمکے کہ ہرذرہ ستارہ اورہر ستارہ چاند نظرآنے لگا اورسورج میں تو اتنی آب وتاب بھرگئی کہ وہ خود کوکہکشاں سمجھنے لگا اوراتنی زیادہ چمک کی وجہ سے ''راہو''کی اس پر نظر پڑگئی اوراسے نگل گیا۔
نیا نیا تھا، اگر تجربہ کار ہوتا تو انتظار کرتااور راہوکے کٹے ہوئے گلے سے نکل کر پھر چمکنے لگتا لیکن اپنی چمک کے غرورمیں بے تحاشااچھلنے کودنے لگا اور راہوکے پیچھے پڑ گیا، اورتو کچھ نہ ہوا، راہو نے اسے دوبارہ نگل لیا لیکن اس مرتبہ اتنا چبایا کہ نکلنے پر بھی وہ چمک دمک نہیں رہی ہے ۔
بیچارے کا سارا ''نظام شمسی'' ہی تتر بتر ہوگیاہے۔ وہ ستارے اورسیار ے جو اس کے گرد باقاعدہ محور ومدار بناکر گھومتے تھے، دوسرے نظام شمسی میں جاکر گھومنے لگے ہیں یا یوں سمجھ لیجیے کہ ''راہوکال'' سے نکل کر دوسرے مداروں میں گھوم رہے ہیں ۔اس عرصے میں اطلاع ملی ہے کہ ہماری اس ملکی وے گلیکسی میں ایک اورنظام شمسی ابھر رہا ہے،استحکام کے نام سے اور راہوکال سے نکلے ہوئے چاند ستارے وہاں اپنا اپنا مدار قائم کررہے ہیں۔
بہرحال بات گھوم پھر کروہیں جا پہنچتی ہے کہ ہیں کواکب کچھ اور،دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا۔اوریہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ جوہار کر بھی جیتے، اسے بازیگرکہتے ہیں اوران کامجموعی عقیدہ اورنعرہ اوردعویٰ ہے ۔
ہم کواکب ہیں، ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے، راستہ ہوجائے گا
ویسے یہ بالکل صحیح وقت ہے، استحکام کا۔کیوں کہ باقی جو ہوتا تھا یاکرنا تھا، وہ پہلے و الے کئی ''سورج'' کرچکے ہیں۔ روٹی کپڑا مکان ہوچکا ہے، تبدیلی بھی آچکی ہے، قرض اتاروملک سنواروبھی ہوچکاہے، نیا پاکستان ، ریاست مدینہ بھی ہوچکاہے ،اب ان سب کو ''استحکام'' کی ضرورت ہے اوریہ بھی یقیناً ہو جائے گا کیوں کہ مانا اورآزمایا ہوا ''میٹریل'' جمع کیا جارہاہے، معمار اورانجنئیر فراہم کیے جارہے ہیں، گو ''بھان متی'' کہیں کا اینٹ کہیں کا روڑا جمع کرکے ''مستحکم سیمنٹ''سے کنبہ جوڑرہا ہے۔
ایک دن پھروہی پہلی سی بہاریں ہوں گی
اسی امید پہ ہم دل کو ہیں بہلائے ہوئے