حالیہ دنوں حکومت قوم کو خوشخبریاں سنارہی ہے کہ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر قرض کا معاہدہ ہوگیا۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے خود کہا ہے کہ یہ کوئی خوشی کی بات نہیں، کوشش کریں گے کہ اس سے جان چھڑائیں اور انہوں نے دعا بھی کی کہ خدا کرے آئندہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔
آئی ایم ایف کا قرض ملکی معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھاتا ہے، گو کہ وقتی طور پر بوجھ کم ہوتا اور معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آئی ایم ایف سود پر قرض دیتا ہے اور سودی قرض کا بہت بڑا نقصان ہی یہی ہے کہ قرض لینے والا باآسانی اس سے نکل نہیں پاتا اور وہ سود در سود کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف قرض بھی ایسے دیتا ہے جیسے بھیک دے رہا ہو۔ اس کےلیے ریاستوں کو اپنی آزادی و خودمختاری تک کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک ایک بار اس کے چنگل میں پھنس جائیں پھر ان کےلیے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جن کے ذریعے وہ قرض لینے والے ممالک کو جکڑ لیتا ہے۔ آئی ایم ایف ان ممالک کو اتنا ہی قرض فراہم کرتا ہے جس سے وہ بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والا سود ہی ادا کرپاتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنے دیگر اخراجات کےلیے پھر قرض لینا پڑتا ہے۔ یوں غریب ممالک آئی ایم ایف اور اس کے پس پردہ ممالک کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی، وہ معاشی طورپر تباہ ہوگئے۔
غریب ممالک کےلیے آئی ایم ایف کا قرض زہر قاتل سے کم نہیں۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی داؤ پر لگا چکا ہے۔ پاکستان نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط مانیں اور قرض لے کر معیشت کی تباہی کا تحفہ حاصل کرلیا۔ پاکستان کی ہر حکومت نے ان قرضوں کا مزہ چکھا ہے۔ ہماری اپنی پالیسیاں ہی ایسی ہیں کہ حکومتوں کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران اپنی سیاست چمکانے کےلیے عوام کو وقتی اور عارضی فائدے دینے پر بہت توجہ دیتے ہیں، وہ انہیں مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ جو معاشرے اور ریاست دونوں کےلیے تباہ کن ہے۔
آئی ایم ایف ہی مہنگائی کرنے کےلیے حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کیونکہ وہ جب قرض دیتا ہے تو کوشش یہ کرتا ہے کہ پہلے ملک کو اس قابل بنائے کہ وہ قرض واپس بھی کرسکے، جس کےلیے ملکی خزانے کو بھرنا ضروری ہوتا ہے اور ملکی خزانہ ٹیکس لگا کر بھرا جاتا ہے، جس کےلیے عوام پر بھاری ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔ پھر وہ تمام خزانہ آئی ایم ایف کے قرض واپس کرنے اور سیاستدانوں کی عیاشیوں میں لٹا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ملک کو سراسر خسارہ ہی ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف تو امریکی وائسرائے ہے، اس کے پاس جانے والے ممالک بالواسطہ طور پر امریکا کے غلام بن جاتے ہیں، پھر آئی ایم ایف کے ذریعے وہ ممالک کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف مختلف قسم کے مطالبات کرتا ہے، قرض دینے کےلیے اہم معلومات لیتا ہے، جن میں انتہائی حساس نوعیت کی معلومات بھی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف تو ایک مالیاتی ادارہ ہے اسے ممالک کی حساس معلومات سے کیا سروکار؟ اس کے پیچھے امریکا وغیرہ جیسے بااثر ممالک ہوتے ہیں جنہیں یہ معلومات درکار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومتیں بے دھڑک آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتی ہیں حالانکہ انہیں اس سے گریز کرنا چاہیے اور ماہرین کو بٹھا کر تھوڑا اس بات پر غور کرلینا چاہیے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں تو ہمارے پاس معیشت کو سنبھالا دینے کےلیے کون سا راستہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین سیکڑوں راستے بتادیں گے کیونکہ پوری دنیا کی معیشت آئی ایم ایف پر نہیں چل رہی بلکہ اس کےلیے دیگر راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں اور ساتھ ہی ترکیہ اور بھارت کی مثال بھی دے رہے ہیں کہ ہمسایہ ملک 1991 کے بعد جبکہ ترکیہ2007 کے بعد آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انہوں نے محض دعاؤں پر انحصار کرکے آئی ایم ایف سے جان چھڑائی ہے؟ ہرگز نہیں! ان کے سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ وفاداری نبھائی اور ملکی معیشت کی مضبوطی کےلیے ٹھوس اقدامات کیے، تب آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہوا ہے۔
ہمیں بھی آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کےلیے معاشی مضبوطی کےلیے کام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی یاد رکھیے! لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا تو خوشحالی آجائے گی لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے سود پر قرض ملا ہے، ملکی معیشت سود پر چل رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج وغیرہ سب سود اور جوا ہے تو ملک میں خوشحالی کیسے آسکتی ہے؟ جب ہم نے خدا کو ناراض کیا ہوا ہے اور اس سے اعلان جنگ کر رکھا ہے تو کبھی خوشحال نہیں ہوسکتے۔ خوشحالی کےلیے سودی نظام کا خاتمہ بھی نہایت ضروری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔