آصفہ بھٹو زرداری پر تنقید کیوں
اخبارات اور نجی ٹی ویز پر اُٹھائے گئے یہ اعتراضات بجا بھی ہیں اور بروقت بھی
پاکستان کے وزیر خارجہ جناب بلاول بھٹو زرداری، چار روزہ سرکاری دَورے (2جولائی تا 5 جولائی 2023) پر جاپان میں تھے۔
وہیں سے وہ نجی دَورے پر امریکا چلے گئے حالانکہ انھیں تو چین جانا تھا۔ وہ جاپانی دَورے میں اپنے ساتھ اپنی چھوٹی ہمشیرہ، محترمہ آصفہ بھٹو زرداری، کو بھی لے گئے تھے۔
پاکستان میں ایسے افراد اور گروہوں کی کمی نہیں ہے جو بلاول بھٹو پر برستے ہُوئے یہ کہتے نہیں تھکتے:''یہ صاحب بِلا وجہ آئے روز دُنیا کے کسی نہ کسی ملک کے دَورے پر رہتے ہیں ۔
یہ اپنے ملک میں ٹکتے ہی نہیں۔'' یہ تنقید بِلا وجہ بھی ہے اور بے بنیاد بھی ۔ کسی بھی ملک کا وزیر خارجہ اگر اپنے ہی ملک میں ٹِکا رہے تو وہ خارجہ اُمور کی متعینہ خدمات کیا خاک انجام دیگا؟ ایک پنجابی محاورے کے مطابق( آٹا گوندتے ہُوئے ہلتی کیوں ہو؟)مگر جنھیں تنقید کرنا ہے ، آپ اُن کی زبان نہیں پکڑ سکتے ۔ سچ مگر یہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مجموعی طور پر بحیثیت وزیر خارجہ، پاکستان کی بہترین خدمات انجام دی ہیں ۔ اب تک کوئی بھی اُن کے اِس کردار پر انگشت نمائی نہیں کر سکا ہے ۔
خصوصاً بلاول بھٹو نے امریکا اور بھارت کے دَوروں میں پاکستان کے اصولی موقف اور طے شدہ قومی پالیسیوں کا پرچم بلند کیے رکھا۔اگرچہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے نقاد یہ بھی تسلسل سے کہہ رہے ہیں کہ جناب آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم حکومت میں اپنے صاحبزادے کو بطور وزیر خارجہ شامل کرکے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے انھیںاقوامِ عالم کے سامنے متعارف کروایا ہے۔
آصف زرداری کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادے کو پاکستان کا وزیر اعظم بھی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اقوامِ عالم کے لیے بلاول بھٹو کا چہرہ اجنبی نہیں ہوگا ۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ، زیڈ اے بھٹو، کی ایرانی نژاد اہلیہ ، محترمہ نصرت بھٹو ، نے ایک بار کہا تھا : '' بھٹو خاندان کا ہر فرد اقتدار کے تخت پر بیٹھنے کے لیے پیدا ہُوا ہے ۔''ہم ایسے صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہونے والے لوگوں کو نصرت بھٹو صاحبہ کا یہ بیان اُس وقت بھی اچھا نہیں لگا تھا ، اب بھی بھلا نہیں لگتا ۔
وقت نے مگر ثابت کیا ہے کہ محترمہ نصرت بھٹو غلط نہیں تھیں ۔ زیڈ اے بھٹو کے والد صاحب ، سندھی وڈیرہ شاہنواز بھٹو ، بھی متحدہ ہندوستان کی ایک ریاست کے وزیر اعظم تھے ۔ بھٹو صاحب خود وزیر اعظم بنے ۔ اُن کی صاحبزادی، محترمہ بے نظیر بھٹو، دو بار وزیر اعظم منتخب ہُوئیں ۔ شہید بے نظیر بھٹو صاحبہ کے شوہر نامدار، آصف علی زرداری ، صدرِ مملکت بنائے گئے ۔
نصرت بھٹو صاحبہ کا نواسہ ، بلاول بھٹو زرداری ، وزیر خارجہ بنا۔ سندھ پر پچھلے15 برسوں سے بھٹو اور زرداری خاندان کی مسلسل حکومت چلی آ رہی ہے ۔ ایسے میں کون نصرت بھٹو مرحومہ کے مذکورہ بالا بیان کی تغلیط و تکذیب کر سکتا ہے ؟ اگر کل کلاں بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو نصرت بھٹو صاحبہ کا قول تو پتھر کی لکیر ثابت ہو جائے گا ۔
اور اب یوں نظر آ رہا ہے کہ نصرت بھٹو کی نواسی اور شہیدمحترمہ بے نظیر بھٹو کی بیٹی ، آصفہ بھٹو زرداری ، کو بھی اقتدار کے محل میں داخل کرانے کے لیے ابتدائی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ آصفہ بھٹو کی بڑی ہمشیرہ ،محترمہ بختاور بھٹو ، شادی شدہ ہیں، ماشاء اللہ 2بچوں کی ماں ہیں اور یو اے ای میں بمسرت قیام پذیر ہیں لیکن آصفہ بھٹو زرداری اپنے وزیر بھائی اور مقتدر و طاقتور والد کے ساتھ ، سیاسی مجالس میں، مسلسل اور نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ۔ میڈیا کے لیے آصفہ کی سیاسی سرگرمیوں کی تصاویر دانستہ جاری کی جاتی ہیں ۔
لگتا ہے کہ آیندہ قومی و صوبائی انتخابات میں وہ بھرپور حصہ لیں گی اور قوی اُمید ہے کہ وہ منتخب بھی ہو جائینگی کہ انھیں ہر قسم کی سیاسی ، مالی ، سماجی اور انتخابی قوتیں دستیاب ہیں ۔ فی الحال مگر آصفہ بھٹو زرداری صاحبہ کسی اسمبلی کی رُکن ہیں نہ اُن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہی ہے ۔ اُن کا بڑا تعارف یہی ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو و آصف علی زرداری کی بیٹی اور بلاول بھٹو کی ہمشیرہ ہیں۔
ایسے پیش منظر میں جب وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری ، اپنی ہمشیرہ ، محترمہ آصفہ بھٹو ، کو اپنے ساتھ چار روزہ دَورے پر جاپان لے گئے تو پاکستان میں اُن پر کئی اطراف و جوانب سے بوچھاڑ کی گئی ہے ۔
اعتراضات کیے گئے ہیں کہ بلاول بھٹو کس حیثیت کے تحت آصفہ بھٹو کو اپنے ساتھ سرکاری دَورے پر جاپان لے گئے ؟ معترضین یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ اِس وقت جب کہ پاکستان ایک ایک ڈالر کو ترس رہا ہے ، آصفہ بھٹو زرداری کے غیر ضروری جاپانی دَورے پر پاکستان کا قیمتی زرِمبادلہ کیوں خرچ کیا گیا ہے ؟
اخبارات اور نجی ٹی ویز پر اُٹھائے گئے یہ اعتراضات بجا بھی ہیں اور بروقت بھی۔ پہلے تو اِن اعتراضات پر پیپلز پارٹی اور بھٹو و زرداری خاندان کی جانب سے خاموشی ہی رہی لیکن جب اِن میں شدت پیدا ہُوئی تو پیپلز پارٹی کے زمہ داران حلقوں اور بعض وزرا کی جانب سے یہ کہا گیا: ''محترمہ آصفہ بھٹو زرداری چونکہ یو این او کی پولیو ایمبیسیڈر ہیں اور جاپان کی جانب سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے بڑی خدمات جاری ہیں۔
اس لیے بھی اِس حیثیت میں آصفہ بھٹو کا جاپان جانا ضروری تھا۔'' اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ''بلاول بھٹو زرداری کی طرح آصفہ بھٹو زرداری کے دَورئہ جاپان پر پاکستان کے قومی خزانے سے کوئی پیسہ صَرف نہیں کیا گیا ، بلکہ آصفہ بھٹو نے یہ اخراجات خود برداشت کیے ۔''
پیپلز پارٹی اور مقتدر بھٹو خاندان کی جانب سے قوم اور میڈیا کو اِن اخراجات کی تفصیلات اور ثبوت تو فی الحال فراہم نہیں کیے گئے لیکن ہمیں پیپلز پارٹی کے بیان پر یقین کر لینا چاہیے۔ ممکن ہو تو اگر پیپلزپارٹی اِس ضمن میں ثبوت بھی فراہم کردے تو اس کی اہمیت اور وقار میں اضافہ ہی ہوگا اور یہ اقدام آیندہ انتخابات میں اس پارٹی کے کام بھی آئیگا۔ یہ بات مگر قابل ذکر ہے کہ آصفہ بھٹو کے دَورئہ جاپان پر سب سے زیادہ تنقید جماعت اسلامی کی جانب سے سامنے آئی ہے ۔
کراچی کے امیر جماعت اسلامی انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے ایک ٹویٹ کے ذریعے آصفہ بھٹو اور سندھ میں مقتدر بھٹو خاندان پر سخت تنقید کی ہے ۔ حافظ نعیم الرحمن حال ہی میں کراچی کے میئر انتخابات میں بوجوہ پیپلز پارٹی سے ہار گئے ہیں اس لیے اُن کی مذکورہ تنقید قابل فہم ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری صاحبہ پر جماعت اسلامی کی تنقید کا سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کے وابستگان اور ذمے داران نے سخت اور بھرپور جواب دیے ہیں ۔
اِس ضمن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''اگر اقتدار میں آ کر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اپنی صاحبزادی راحیلہ قاضی صاحبہ کو سینیٹر بنوا سکتے تھے تو آصفہ بھٹو اپنے وزیر خارجہ بھائی کے ساتھ جاپان کیوں نہیں جا سکتیں؟'' سچ یہ ہے کہ سیاست و اقتدار کی بہتی گنگا میں ہماری سبھی اشرافیہ نے ایسے اشنان کررکھے ہیں۔ اِس ضمن میںکوئی ایک جماعت کسی مخالف جماعت کو اور کوئی ایک سیاسی لیڈر کسی مخالف لیڈر کو مہنا مار سکتا ہے نہ مطعون کر سکتا ہے۔