NFC کے مسائل
پاکستان کی معاشی حالت کیوں خراب ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں‘جن کا ذکر اس وقت مناسب نہیں
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے۔ مرکز اور صوبوں اور کبھی خود صوبوں کے درمیان مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں ' ان مسائل کے حل کے لیے آئین پاکستان میں مختلف اداروں کے قیام کا بندوبست کیا گیا ہے' جو صوبوں اورمرکز کے مابین مختلف مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری ادا کرتے ہیں۔
ان میں مشترکہ مفادات کی کونسل (Council of Common Interest-CCI)اور قومی مالیاتی کونسل (National Economic Council-NEC ) جیسے ادارے شامل ہیں۔
ہر سال جون کے مہینے میں صوبوں نے اپنے بجٹ بنانا ہوتا ہے'اب بھی مرکزی بجٹ کا اعلان ہوا ہے' اس لیے آج بجٹ کے حوالے سے ہمارا موضوع ایک اور آئینی ادارےC NFکے بارے میں ہے۔بجٹ بنانے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے 'آئین کے آرٹیکل 160کے تحت ہر 5 سال بعد NFCکے ادارے کا قیام ایک آئینی ضرورت بن چکا ہے 'تاکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا مناسب انتظام ہوسکے۔
مرکز تمام محصولات اکھٹا کرتی ہے 'ان میں انکم ٹیکس' سیلز ٹیکس' کسٹم ڈیوٹی'ایکسپورٹ 'امپورٹ ڈیوٹی سمیت دیگر محصولات شامل ہیں'ان محصولات کو ہر سال مرکز اور صوبوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک ادارہ آئین میں تجویز کیا گیا ہے' اس آئینی ادارے کو نیشنل فنانس کمیشن کہتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ 'صوبائی وزرائے خزانہ اور ایسے دیگر اشخاص اس کے رکن ہوتے ہیں جنھیں صدر صوبوں کے گورنرز کے مشورے سے مقرر کرتے ہیں'کمیشن ہر پانچ سال بعد مرکز اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا فارمولہ طے کرکے ایوارڈ کا اعلان کرتاہے 'کمیشن کے دائرہ اکار میں مندرجہ امور آتے ہیں۔
(1)تما م مرکزی محصولات کی خالص آمدنی کی وفاق اور صوبوں میں تقسیم۔(2)وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو امدادی رقوم دینا۔(3) وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوںکی جانب سے قرضہ لینے کے ان اختیارات کا استعمال جو دستور کے مطابق ان کو عطا ہو ۔ (4)مالیات کے بارے میں کوئی اور معاملہ جسے صدر نے کمیشن کو بھیجاہو ۔
1975 میں پہلے نیشنل فنانس کمیشن کا اعلان کیا گیا تھا'اس کے بعد 1990میں ایک عارضی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا' طویل انتظار کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 20 اپریل 1991 کو کمیشن ایوارڈ کا اعلان کیا، یوں صوبوں کو اپنے مطالبے کے مطابق مالی معاملات میں خود مختاری حاصل ہوئی۔
NFCایوارڈ وقت پر پیش نہ کرنے کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ صوبوں نے جب سالانہ بجٹ پیش کرنا ہوتا ہے تو ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی آمدنی کتنی ہوگی 'جب تک صوبوں کو اپنی آمدن کا پتہ نہ ہو وہ بجٹ کیسے بنا سکتے ہیں۔
NFCایوارڈ میں سب سے بڑا مسئلہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا فارمولہ طے کرنا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ آبادی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ پا کستان کی آبادی کا پرانی مردم شماری کے مطابق اندازہ اس طرح ہے ۔
صوبہ پنجاب 57.88 فیصد، صوبہ سندھ 23.28 فی صد' صوبہ خیبر پختونخوا 13.54 فیصد اورصوبہ بلوچستان 5.30فی صد۔ خیبر پختونخوا 'سندھ اور بلوچستان اس فارمولے پر تحفظات ظاہر کرتے ہیں'ان کا کہنا ہے کہ اگر فنڈز آبادی کے لحاظ سے تقسیم ہوں گے تو پنجاب کو زیادہ حصہ ملتا ہے ' جب کہ کم آبادی والے صوبوں کے حصے میں کم رقوم آتی ہیں۔بلوچستان کا رقبہ سب سے زیادہ ہے اور پسماندگی بھی زیادہ ہے۔
ان کا موقف ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم میں رقبے اور پسماندگی کو فوقیت دی جائے ' سندھ خصوصاً شہری سندھ کا موقف رہا ہے کہ سندھ وفاق کو سب سے ریونیو دیتا ہے، اس لیے ایوارڈ میںاس صوبے کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے 'سندھ اپنے کارخانوں کے ٹیکس اور بندرگاہ ہونے کے ناطے یہ مطالبات کر رہا ہے 'خیبر پختونخوا آج تک پسماندگی کو بنیاد بنا کر وفاقی محاصل میں زیادہ حصے کا مطالبہ کررہا ہے۔
پاکستان کی معاشی حالت کیوں خراب ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں'جن کا ذکر اس وقت مناسب نہیں' صرف ایک مثال کافی ہے کہ اگر ایک مکان بہت عالی شان ہو اور اس میں ہر قسم کی سہولتیں میسرہوں 'لیکن اس کے دونوں طرف کے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر نہ ہوں تو اس مکان کے مکین کبھی سکون کے ساتھ نہیںرہ سکتے 'بہرحال ہمارا آج کا موضوع NFC ہے، میں یہاں NFC میں بلوچستان کے نمایندے محترم قیصر بنگالی کی تجاویز رقم کرتا ہوں۔NFC کے متعلق چار مختلف رائے اور تبصرے اہم ہیں۔
(1)۔ یہ کہ ساتویں NFCایوارڈ نے وفاقی حکومت کی مالیاتی اختیارات کو ختم کردیا ہے ۔ (2)۔ این ایف سی فارمولے میں آبادی کو زیادہ وزن دینا 'آبادی میں اضافے کے لیے ایک ترغیب دینا ہے ۔ (3)۔ صوبوںنے مقامی حکومتوںکے قیام کے لیے آئینی تقاضے کو نظر انداز کردیا۔ (4)۔اس ایوارڈ کا میکنزم ماحولیات کی تبدیلی کے خطرات کو دور نہیں کرتاہے۔
مالی بنیاد کی دلیل طاقتور مرکز پرست لابی کے ذریعے چلائی جارہی ہے 'جو بنیادی طور پر صوبائی خود مختاری کے تصورکی مخالف ہے اور 18ویں ترمیم اور NFCکو ختم کرنے کے لیے مختلف قسم کے دلائل استعمال کرتی ہے۔
آبادی کا استدلال غلط ہے 'آج کی شرح پیدائش طویل مدت کے بعد آبادی کے تناسب کو متاثر کرتی ہے 'جب کہ حکومتیں رواں تبدیلیوں اور حالات سے متاثر ہوتی ہیں۔آبادی کی زیادتی اور کمی مالیاتی وسائل پر اثر انداز ہوتی ہے 'آبادی کے تناسب کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا البتہ اس ایوارڈ میں دیگرمسائل کو بھی زیر غور لانا چاہیے۔لوکل گورنمنٹ کو NFCکے بحث میں شامل نہیںکیا جا سکتا ، یہ این ایف سی کا آئینی مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ لوکل گورنمنٹ کے مسائل حل کرے۔
ایک اور تجویز 'NFCفارمولے کومزید منافع بخش بنانے کے لیے' مرکز کے لیے یہ ہے کہ وہ زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس سمیت فی صد فیصد آمدنی اور کارپوریٹ ٹیکس برقرار رکھے اور تمام بالواسطہ ٹیکس کو بانٹے۔کسٹم ڈیوٹی اور سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی ' صوبوں کے لیے 80فی صداور مرکز کے لیے 20فی صد۔خالص انکم ٹیکس کی مکمل برقراری وفاقی حکومت کو امیروں سے ٹیکس کی وصولی کے لیے زیادہ کو شش پر آمادہ کرے گی۔
اس طرح غریبوں پر نسبتاً بوجھ کم ہوگااور ٹیکس کے ڈھانچے کو مزید ترقی یافتہ بنایا جائے گا'زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کی مرکز کو منتقلی سے ٹیکس نظام میں بگاڑ دور ہوجائے گا'جس سے صوبوں کو معمولی نقصان ہوگا۔