لاہور کا انوکھا قبرستان جہاں مسلمان مسیحی اور بالمیکی ہندوؤں کی قبریں ہیں

حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے اس کی حالت کافی خراب ہے


آصف محمود July 11, 2023
فوٹو : ایکسپریس نیوز/آصف محمود

لاہور میں ایک ایسا قبرستان بھی ہے جہاں مسلمان ، مسیحی اور ہندؤ بالمیک سماج کی قبریں ہیں لیکن حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے اس کی حالت کافی خراب ہے، شہر میں ہندوؤں کے بالمیکی سماج کا واحد قبرستان ہے تاہم یہاں مسیحی برداری بھی اپنے مردے دفن کرتی ہے۔

یہ قبرستان کئی برسوں تک متنازعہ رہا ہے جبکہ آج بھی یہاں ایک بزرگ حویلی شاہ کی قبرموجود ہے جس سے متعلق مسلمان، مسیحی اور بالمیکی ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بزرگ ان کے مذہب کے ماننے والے تھے۔

لاہور میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب جی ٹی روڈ کے ساتھ بدھوکاآوا قبرستان ہے۔ مقامی ہندوؤں کے مطابق یہ قبرستان 1830 سے یہاں موجود ہے اور ہندو شیڈول کاسٹ یہاں اپنے پیاروں کی تدفین کرتی ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ہندو رہنما امرناتھ رندھاوا نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عام طور پر ہندو برادری اپنے پیاروں کی چتا جلاتی ہے تاہم شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی اکثریت اب اپنے مردوں کی تدفین کرتی ہے۔ پاکستان میں آباد شیڈول کاسٹ میں سب سے زیادہ آبادی بالمیک سماج کی ہے۔

امرناتھ رندھاوا کے مطابق بالمیکی سماج کے بانی مہارشی سوامی گورو بالمیک تھے۔ گورو بالمیک جی مورتی پوجا کے خلاف تھے چنانچہ بالمیکی مندروں میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نہیں ہوتیں۔ یہ لوگ وید پڑھتے اور رامائن کا پاٹھ کرتے ہیں اور اپنے مردوں کو عام ہندوؤں کے برعکس دفن کرتے ہیں۔

امرناتھ رندھاوا کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت بالمیکی ہندؤں کی بڑی تعداد پاکستان میں ہی رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھیل، دلت اور میگھوار ہندوؤں کی بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہے۔ لاہور میں چار سے پانچ ہزار بالمیک ہندو آباد تھے تاہم آج ان کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی بڑی تعداد اپنا مذہب چھوڑ عیسائیت قبول کرچکی ہے۔

فوٹو : ایکسپریس نیوز/آصف محمود فوٹو : ایکسپریس نیوز/آصف محمود

امرناتھ رندھاوا نے بتایا کہ شیڈول کاسٹ ہندؤں کا یہ قبرستان 1830 سے موجود ہے تاہم مقامی لوگوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان کے دادا چوہدری تارا چند رندھاوا تحریک پاکستان میں کافی سرگرم رہے تھے، ان کی قبر یہاں موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بالمیک سماج کے کئی افراد کی قبریں اب بھی موجود ہے جبکہ زیادہ تر قبریں ختم کی جا چکی ہیں۔ مقامی لوگوں نے یہاں قبضہ کرکے ورکشاپ اور جوتوں کی فیکٹری بنا دی تھی لیکن اگست 1992 میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے قبرستان کا قبضہ واگزار کروانے کے بعد ہندو کمیونٹی کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب یہ قبرستان ان کی برادری کے پاس ہی ہے۔ ان کے والد ہیرالال رندھاوا، بھگت عاشق رام کے بعد انہوں نے اس قبرستان کا قبضہ واپس لینے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی ہے۔

اس قبرستان میں کئی مسیحی افراد بھی دفن ہیں جبکہ یہاں موجود گورگن بھی مسیحی ہے۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہاں ان مسیحی افراد کی قبریں ہیں جو خود یا ان کے اجداد ہندو مذہب چھوڑ کر مسیحی بن گئے تھے۔ یہ لوگ اب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں ان کے اجداد کی قبریں ہیں اور یہ قبرستان مسیحی برادری کا ہے۔

یہ قبرستان کئی برسوں تک متنازعہ رہا ہے یہاں موجود ایک قبر تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔ حویلی شاہ نامی بزرگ کی قبر سے متعلق مسلمان اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ قبر انکے بزرگ کی ہے جبکہ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ بزرگ کا ان کے مذہب سے تھا۔

امرناتھ رندھاوا کہتے ہیں کہ ہندوؤں میں بھی شاہ خاندان ہوتے ہیں، حویلی شاہ بھی ہندو تھے لیکن یہاں موجود بعض عناصر نے ان قبر پر کتبہ لگا دیا جس پر مسلمانوں کا کلمہ اور دیگر مقدس الفاظ تحریر ہیں اور یہ دعویٰ کر دیا کہ یہ بزرگ مسلمان تھے۔

ایکسپریس ٹربیون نے اس حوالے سے جب چند مقامی مسلمانوں سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو کسی کو بھی ان بزرگوں کے شجرہ نسب بارے معلوم نہیں ہے تاہم یہ دعویٰ ضرور کیا جاتا ہے کہ یہ صوفی بزرگ نوشاہی، قادری سلسلہ سے ہیں۔ کتبے پر ان کی تاریخ وفات بھی درج ہے جو 1968 ہے۔

مقامی شہری پرویز مسیحی کہتے ہیں کہ اس قبر کے حوالے سے مسلمانوں کا دعویٰ درست نہیں ہے، یہ بزرگ مسیحی تھے تاہم ان کا تعلق اس بالمیک ہندو خاندان سے تھا جس نے اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائیت قبول کرلی تھی اس لیے عیسائی برادری یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ قبران کے بزرگ کی ہے۔ قبرستان کے مسیحی گورگن شوکت کے مطابق انہوں نے حویلی شاہ کو خود دیکھا تھا، جو محنت مزدوری کرتے اور آتش بازی کا سامان تیار کرتے تھے۔

امرناتھ رندھاوا نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اس قبرستان کا قبضہ ہندو برادری کو مل چکا ہے لیکن اس کی حالت انتہائی خراب ہے، اندر جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں، یہاں جوتے بنانے کی فیکٹری تھی جس کا ملبہ قبرستان کے اندر ہی موجود ہے، آج بھی اگر قبر کے لیے کھدائی کریں تو پلاسٹک اور جوتے نکلتے ہیں۔ اس لیے ہم نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ قبرستان کی بحالی کے لیے فنڈز ریلیز کیے جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے 20 لاکھ روپے کے فنڈز مختص کیے تھے مگر یہاں کام نہ ہوا اور وہ فنڈز واپس ہوگئے۔ اس کے بعد جب اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بنایا گیا تو 3 کنال 14 مرلہ رقبہ پر مشتمل اس قبرستان کے فرنٹ سے 3 مرلہ کے قریب جگہ اس منصوبے میں شامل کرلی گئی۔ یہاں سامنے کی طرف ایک دیوار بنا کر دروازہ لگا دیا گیا ہے لیکن مزید کوئی ڈویلپمنٹ نہیں کی گئی ہے۔ اب دوبارہ 10 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن بار بار درخواستوں کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے یہ فنڈز جاری کیے اور نہ ہی موجودہ حکومت فنڈز ریلیز کر رہی ہے۔ ہماری حکومت سے التماس ہے کہ قبرستان کی حالت بہتر کی جائے۔

امرناتھ رندھاوا نے کہا کہ بے شک یہ بالمیک سماج کا قبرستان ہے لیکن اگر یہاں کوئی مسیحی اور شیڈول کاسٹ ہندو بھی اپنے مردے دفن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں