Phoenix نفرت کی آگ سے جنم لیتا ادب
ادب Phoenix کی طرح ہے جو بد ترین فرقہ واریت، مذہب، رنگ و نسل، یا طبقاتی نفرت کی آگ سے جنم لیتا ہے
ادب کی روح میں نفرت سے کنارہ کرنا ہے، اسی لیے ایک دانشور نے کہا تھا :
"It is in literature the concrete out look of humanity receives its expression"
ادب نے ابتدا سے آج تک انسانی سماج کے اندر موجود مختلف نفرتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ذات پات، عقیدہ، نسل ، رنگ، طبقاتی اور لسانی تقسیم، فرقہ واریت اور آج اکیسویں صدی کی نئی نفرتوں کی باڑھ کے سامنے انسان دوستی، رواداری اور افہام و تفہیم کا بند ادب نے باندھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں چھ ہزار زبانیں ہیں، یہ زبانیں جو موجود ہیں ، جو مٹ گئیں ان کا ادب انسان کو انسان سے ، فطرت اور اس کی عنایتوں سے عشق کرنا سکھاتا ہے، موہنجو دڑو سے برآمد ہونے والی عبارتیں جو پڑھی نہیں گئیں جب پڑھ لی جائیں گی تو وہ یا کسی گرہستن کے گھر کا حساب کتاب ہوں گی یا کسی محبت بھری نظم کا ٹکڑا، لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی جنگی گیت نہیں ہوگا یوں بھی موہنجو دڑو سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ہے وہاں کے شاعر جنگی گیت کیسے لکھتے؟
کھدائی میں بر آمد ہونے والے مصریوں کے لکھے ہوئے وہ پیپرز جو چار ہزار برس پرانے ہیں ان میں بھی ہمیں نفرت کا درس نہیں ملتا، عشق کا ترانہ ہے، انصاف کی طلب گاری ہے اور دریائے نیل کی لہروں کے قصے ہیں۔
گوتم بدھ نے ذات پات کی بھیانک تقسیم کے خلاف آواز بلندکی تو یہ نہیں کہا کہ ذات پات کے بھیانک نظام کے خلاف تلوار اٹھا لو ۔ وہ لوگوں کے دلوں میں محبت ، تحمل ، رواداری کے بیج بوتے رہے۔
یہی بیج کالنگا کے میدان میں لاکھ سپاہیوں کی لاشوں کے درمیان کھڑے ہوئے اشوک کے دل میں پھوٹا تو سارے ہندوستان میں بلخ اور بامیان میں سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا۔ ان کے گھروں میں رکھی ہوئی چھریاں، عورتیں سبزی کاٹنے کے لیے تیزکرتی تھیں۔
اس دنیا کی ہر زبان، ہر زمانے اور ہر زمین کے ادب کا ذہن افق تا افق، آسمان کی طرح پھیلا ہوا ہوتا ہے، تب ہی وہ اپنے دامن میں انھیں بھی سمیٹ لیتا ہے جو نفرت کرتے ہیں۔ نفرت کرنے والوں کے دلوں پر پڑے ہوئے زنگ آلود قفل کو مہاتما گاندھی نے اور نیلسن منڈیلا نے اپنے لفظوں سے کھولا۔
'' تلسی داس ،کالی داس،کبیر، میرا بائی، امیر خسرو ، میر، غالب، مخدوم ، سردار جعفری، کیفی، جوش سب نے انسانوں کو قریب لانے اور دلوں کو جوڑنے کی بات کی۔
ہمار ے رتن ناتھ سرشار کا '' فسانہ ٔ آزاد'' ہندوستان کی مشترکہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک عظیم الشان Mural ہے جس میں ہندو، مسلمان، عورت، مرد سب ہی ایک پھیلی ہوئی اور عظیم تہذیب کا حصہ ہیں۔ اسے پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کتنی بڑی مشترک تہذیب کے وارث ہیں، یہ جان کر دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کیسی گنجائشیں نکلتی ہیں۔
1936 کی ترقی پسند تحریک ہو یا برمی زبان کی Khitsan ادبی تحریک ہمارے پریم چند اور سجاد ظہیر ہوں یا برما کے Minthu Wan ان لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں They began to write wider humanistic themes and concerns اسی طرح بنگلہ ادب میں ٹیگور نے تمام تقسیم سے بلند ہوکر گیتان جلی اور گورا اور کابلی والا جیسی تخلیقات دنیا کو دیں سرت چند چیٹر جی، رقیہ سخاوت حسین، نذر الاسلام ، علاؤ الدین آزاد، سید شمس الحسن ِ سید شمس الرحمن، سلینا حسین انسان دوست ادیبوں کی ایک بہت بڑی برادری ہے جس نے انسانوں کے دلوں سے نفرتوں کو دھونے کی کوششیں کیں۔
اسی طرح پنجابی ، سندھی، کشمیری، تامل ، تیلگو ، ہماری کون سی زبان ہے جس کے لکھنے والوں نے اپنے قلم سے سوئی کا کام نہیں لیا اور سماج کی ادھڑی ہوئی بُنت کو اور دلوں کو رفو کرنے کی کوشش نہیں کی۔
برصغیر میں جب فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت کی کالی آندھی چلی تو ہمارے کچھ ادیبوں نے مایوسی کے عالم میں یہ اعلان کیا کہ انسان مرگیا ہے ۔
عین اسی وقت کرشن چندر، منٹو، عصمت ، احمد ندیم قاسمی ، خوشونت سنگھ، بھیشم ساہی، فیض، امرتا پریتم ، سردار جعفری ، مخدوم ، تاباں، جوش ، کملیشور ، جگن ناتھ آزاد، ساحر اور ان کے بعد آنے والے، رتن سنگھ ، قرۃ العین حیدر، مہندر ناتھ ، جوگندر پال ، جیلانی بانو اور ان گنت نامور اور گمنام ادیبوں کی تحریروں میں اس زندہ انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں، یہ انسان ہمیشہ سے موجود تھا اور ہمیشہ موجود رہے گا۔
وحشت اور بربریت کے زمانوں میں بھی ادب اور ادیب نے اس انسان کو زندہ رکھا ہے۔ ہمارے ان ادیبوں کی تحریریں فرقہ واریت سے لڑائی لڑ رہی تھیں اور بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر رہی تھیں، بعد میں آنے والوں نے بھی یہ کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔
مہاشو پتا دیوی، جیا مترا، شومورتی، گلزار ، وبھوتی نرائن، رائے ، ادے پرکاش نرائن، انوش مالویہ، سروپ دھرو اسی طرح پاکستان میں شیخ ایاز، اختر جمال، امر جلیل اور ان گنت دوسرے نفرتوں کے خلاف لکھتے رہے۔
ہندوستان کے ادیبوں کی نئی نسل میں ہم ارون دھتی رائے کو کس طرح بھلا سکتے ہیں جس نے کہا کہ اگر ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف لکھنا اور برصغیر کے کچلے ہوئے ، پسے ہوئے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے حق میں لکھنا غداری ہے تو سن لیا جائے میں غدار ہوں اور یہ غداری کرتی رہوں گی۔
ادیب کا قلم ہر وضع کی نفرتوں کے خلاف لڑتا ہے۔ صنفی بنیادوں پر ایک نفرت عورتوں سے کی گئی اور انھیں غیر انسان سمجھا گیا اس نفرت کے خلاف جون اسٹوارٹ مل، مارکس، اینگلز اور جارج برنارڈشا نے اور اس کے بعد آنے والے بہت سے مردوں اور عورتوں نے ان صنفی تعصبات کو ختم کرنے اور دونوں صنفوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام سولہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا اور بیسویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچا۔
ورجینیا وولف سے سیمون دی بووا اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی خواتین ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اپنی تحریروں سے صنفی تعصبات کے بارے میں لکھ رہی ہے۔ اسی طرح ہمارا دلت ادب ہے جو ذات پات کے تعصبات کے کانٹے چن رہا ہے ۔Black ادب ہے جو رنگ اور نسل کے تعصبات کے خلاف نبرد آزما ہے۔
یہودی اور عرب ادب ہے جو مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے بارے میں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اس ' انسان ' کے ساتھ کھڑے ہیں جو یہودی بھی ہے اور مسلمان بھی۔ عراق اور افغانستان پر امریکا کے ظالمانہ اور غاصبانہ حملوں کے خلاف بھی دنیا میں متعدد ادیبوں نے لکھا اور وہ شاعر ہیں جنھوں نے خود کو Poets Against warکا نام دیا ہے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کتنے بہت سے ادیبوں نے فاشزم کے خلاف لکھا اور پھر امریکی سامراج کی بوئی ہوئی نفرتوں کی بارودی سرنگوں کو اپنے قلم کی نوک سے صاف کیا۔ برٹرینڈر سن، ژاں پال سارتر ، فرانز فینن سے ایڈورڈ سعید ، نجیب محفوظ اور پہلی اور دوسری دنیا کے متعدد ادیبوں، شاعروں اوردانشوروں نے نفرتوں اور عصبیتوں کی آگ کو بجھانے کا کام کیا۔
ادب Phoenix کی طرح ہے جو بد ترین فرقہ واریت، مذہب، رنگ و نسل، یا طبقاتی نفرت کی آگ سے جنم لیتا ہے اور انسان دوست کا گیت گاتا ہے جس طرح فطرت اپنی عنایتیں سب پرکرتی ہے اسی طرح ادیب ان کے لیے بھی لکھتا ہے جو نفرتیں تقسیم کرتے ہیں اور ان کے دلوں سے نفرتوں کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک ایسے زمانے میں جب کہ کچھ لوگ جنگ کو سنہرے اور روپہلے رنگوں سے مصور کر کے ہماری نئی نسل کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہماری یہ ذمے داری بنتی ہے کہ ہم اپنی اس نسل کو یہ بتائیں کہ جنگ انسانوں کو اور انسانی رشتوں کو ہلاک کرنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ اخلاقی اقدار، تہذیبی ، علمی اور ادبی سرمائے کو بھی جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ اس آگ میں رشتے اور روایتیں سب بھسم ہوجاتی ہیں۔