ہم قوم ہیں یا ہجوم
ملک کا نوجوان بہت مایوس اور دل گرفتہ ہے، وہ ہر وقت اس تاک میں ہے کہ اس کو موقع ملے اور وہ ملک سے نکل بھاگے
دانشوروں کی ایک محفل میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ہم پاکستانی ایک قوم ہیں یا ایک ہجوم ہیں۔ سوال کرنے والے صاحب باری باری شرکاء محفل کی جانب متوجہ ہوئے لیکن کسی نے اس کا جواب نہیں دیا، شاید کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا یا وہ پھر جواب دینے کے موڈ میں نہیں تھے ۔لیکن ایک بات جو میں نے محسوس کی۔
اس سوال سے سب شرکاء بہت مضطرب دکھائی دیے جو اس بات کا مظہر تھا کہ یہ وہ چبھتا ہوا سوال ہے جس کا جواب تو ہر ایک کے پاس موجود ہے لیکن جواب دے کر محفل کو بد مزہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سوال کا ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے کہ ہم پاکستانی جو کبھی ایک قوم تھے، آج وہ قوم منتشر ہو کر ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہے ، جو قوم ہجوم میں بدل جائے، اس کو واپس قوم کے رنگ میں ڈھالنے کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستانی عوام کو کوئی ایسا رہبر میسر ہے جو ان کو ایک بار پھر ہجوم سے قوم میں بدل دے کیونکہ معاشرے میں بگاڑ اس قدر پنپ گیا ہے جس نے واپسی کا راستہ دشوارکر دیا ہے لیکن واپسی کا یہ راستہ مشکل ہر گز نہیں ہے۔
ہم قوم سے کیسے ہجوم کیسے بنے اس کے لیے ہماری اشرافیہ نے عوام کو ہجوم میں ڈھالنے کے لیے بھر پور محنت کی جس کا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے اور ہم اس کو بھگت رہے ہیں۔
برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کو جب کئی صدیوں کے اقتدار کے بعد انگریز کی رعایا میں تبدیل ہونا پڑا تو اس وقت ان کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ جب تک ایک قوم کی شکل میں متحد تھے تب تک وہ دشمنوں کی ہر قسم کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہے لیکن اس وقت کی اشرافیہ جس کے پاس اقتدار تھا،اس نے مسلمان قوم کو رعایا میں بدل کر ہجوم بنا ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ وہ حکمران رہے اور نہ ہی وہ عوام رہے جو ایک قوم سے ہجوم میں بدل گئے تھے ۔
برصغیر میں رہنے والوں کی اسی کمزوری کو بھانپتے ہوئے انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں واردات ڈال دی اور متحدہ ہندوستان پر بغیر کسی خاص مزاحمت کے باآسانی قبضہ کر لیا ۔
قابض ہوتے ہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو غلامی کی مزید پستیوں میں دھکیل دیا اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں پر بھی کامیابی سے حکمرانی کی ۔
غلامی کی زنجیروں میں جکڑے برصغیر کے عوام کو محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی کی دانشمندانہ قیادت نے اپنے ساتھیوں کے مشوروں اور مدد سے انگریز کے خلاف ایک آزاد وطن کے لیے جد وجہد کا آغاز کیا ۔
اس جدو جہد کے آغاز میں ہندو رہنماء اس بات پر مصر تھے کہ برصغیر میں ایک آزاد مملکت قائم ہو جائے جس میں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہیں لیکن محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت نے ان کو یہ باور کرادیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جن کا رہن سہن، مذہب، حتیٰ کہ کھانا پینا تک الگ ہے، اس لیے مسلمان اور ہندو ایک ملک میں نہیں رہ سکیں گے۔
اسی سوچ پر دو قومی نظریہ کی داغ بیل پڑی اور اس وقت برصغیر کی مسلم آبادی نے بطور ایک قوم محمد علی جناح کا ساتھ دیا جس کا نتیجہ مسلمانوں کے الگ وطن پاکستان کی صورت میں نکلا۔ برصغیر میں مسلمان اس وقت ایک قوم کی شکل میں متحد تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد یہ قوم متحد نہ رہ سکی، اشرافیہ نے نوزائیدہ مملکت کو چلانے کے لیے من مانے فیصلے شروع کر دیے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قیام پاکستان کے چندبرس بعد ہی پاکستان پر ایوب خان اور اس کے ساتھیوں نے پنجے گاڑ دیے۔
قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں پاکستان کے قیام کے بعدوہ قوم جو سیاسی رہنماؤں کے غلط فیصلوں سے ہجوم میں تبدیل کر دی گئی تھی لیکن 1965 میں پاک بھارت جنگ سے اس قوم کو ایسا پلیٹ فارم میسر آگیا کہ یہ بکھری قوم ایک بار پھر متحد ہو گئی اور ایسی متحد ہوئی کہ قوم کا ہر فرد مادر وطن پر قربان ہونے کے لیے دفاع پاکستان میں سرحدوں کی طرف دوڑ پڑا۔ یہ ایک متحدہ قوم کا وہ جذبہ تھا جس میں ہر مردو زن، بچے ، جوان اور بوڑھوں نے قوم بن کر دنیا کو دکھا دیا۔
لیکن 1971 میں اس قوم کو ایک ایسا سانحہ پیش آیا کہ قوم جو بڑی مشکل سے اکٹھی ہوئی تھی اس کو زبان اور فاصلے کی بنیاد پر الگ کر دیا گیا اور اس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ۔ اس سانحہ کے درپردہ جو بھی محرکات رہے انھوں نے قومی وحدت پر کاری ضرب لگائی ۔ سنتے ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان پر مغربی پاکستان میں کئی دن تک گھروں میںچولہے نہیں جلے تھے۔
اس سانحہ کے بعد بد قسمتی سے پاکستانی قوم کوکوئی ایسے رہنماء نہ مل سکے جن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ یکجا ہو سکے ۔ ہماری اس کمزوری کا دشمن نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ہمیں مذہبی گروہوں اور لسانی تعصبات میں ایسا الجھا دیا کہ ہم واقعی ایک ہجوم میں بدل گئے جس کی نہ کوئی سمت رہی اور نہ کوئی ایسا رہنماء تھا جو درست سمت میں رہنمائی کا تعین کر سکے۔
دانشوروں کی محفل میں البتہ یہ ذکر ضرور ہوا کہ کیا ہم آیندہ نسلوں کو بھی ایک ہجوم کی شکل میں ہی چھوڑ جائیں گے یا اس نوجوان نسل کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والا کوئی رہنماء آئے گا۔ اس مضطرب محفل کے شرکاء یہ کہتے سنے گئے کہ ان کی زندگی تو جیسے تیسے گزر گئی ہے البتہ وہ اس بات پر نہایت متفکرنظر آئے کہ ریاست پاکستان کی نئی نسل کو ہجوم میں تبدل ہونے سے بچانے کے لیے کسی ایسے رہنماء کی اشد ضرورت ہے جو نئی نسل کو ایک قوم میں بدل دے کیونکہ ایک متحدقوم ہی ملک کی تقدیر کا درست فیصلہ کر سکتی ہے ۔
ہمارادشمن بڑا سفاک ہے ،اس نے گزشتہ پچھتر برس میں اپنی معیشت کو اس قدر مضبوط کر لیا ہے کہ اب اس کا شمار دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں ہو رہا ہے اور دوسری جانب ہم ہیں جو قرض کی مے پر شادیانے بجا رہے ہیں۔ ملک کا نوجوان بہت مایوس اور دل گرفتہ ہے، وہ ہر وقت اس تاک میں ہے کہ اس کو موقع ملے اور وہ ملک سے نکل بھاگے، چاہے اس کے لیے اسے غیروں کے سمندروں میں اپنی جان کو بے رحم موجوں کے سپرد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ پاکستانی قوم اور اس کی نوجوان نسل کو اس وقت ہمدردی اور سہارے کی اشد ضرورت ہے ۔
ملک کے بڑے ہی اس قوم کا سہارا بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنی آیندہ نسلوں کے اپنی انا کو قربان کر دیں اور چوبیس کروڑ کے اس ہجوم کو ایک قوم میں بدل ڈالیں۔