قرآن قیامت تک رہے گا
سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے
قرآن کریم فرقان حمید کسی انسان کا کلام نہیں، یہ الہامی کتاب اور اللہ رب العزت کا کلام ہے، وہ اللہ جو کائنات کا مالک و مختارِ کل ہے، جو زمین و آسمانوں کا مالک ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
اللہ کا یہ کلام بھی ہمیشہ رہے گاکیونکہ اس کی حفاظت کی ذمے داری خود خدا کے ذمے ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الحجر میں ارشاد فرمایا ہے کہ ''بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔'' قرآن کریم دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کا دل اور روح ہے۔
عید الضحٰی کے روز جب سویڈن کے ایک ملعون نے سویڈش عدالت کی اجازت اور مقامی انتظامیہ کے مکمل تعاون و سرپرستی میں قرآن کریم کو جلایا تو یہ صرف قرآن ہی نہیں جلا بلکہ روئے زمین پر بسنے والے پونے دوسو کروڑ مسلمانوں کے دل جل گئے۔
اہل مغرب اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں سب کچھ بھول گئے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد یورپ میں توہین اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں پر مبنی ناپاک جسارتیں اور قرآن پاک نذر آتش کرنے جیسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ پہلے پہل ان واقعات کے پیچھے وہاں کے اسلام دشمن اکا دکا لوگ ہی ملوث پائے جاتے تھے لیکن مسلم دنیا کی خاموشی اور بے حسی کو دیکھتے ہوئے اب وہاں کی حکومتیں، عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
وہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ان ناپاک جسارتوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی مغرب دہرے معیار کا شکار ہے ایک طرف پوری دنیا میں ہولو کاسٹ پر لب کشائی کی اجازت نہیں اور دوسری طرف اسلام کی مقدسات کی توہین کا لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اگر ہولو کاسٹ پر بات نہیں ہوسکتی تو پھر اسلام کے مقدسات کی توہین بھی نہیں ہوسکتی۔
قرآن کریم کی بے حرمتی کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔ اسلام دین امن ہے اورہر مسلمان کو امن کا درس دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب کا احترام کرتا ہے، لہٰذا دوسرے مذاہب پر بھی لازم ہے کہ وہ اسلامی شعائر کا احترام کریں۔
سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں دو بڑے کام ہیں جو ہمارے کرنے کے ہیں۔
ایک کام امت کا ہے اور دوسرا مسلم حکمرانوں کا۔ ہر مسلمان بالخصوص یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی عظمت کو یورپ کے چپے چپے تک پہنچائیں، مغرب میں بسنے والے ہر انسان تک پہنچائیں، اظہار رائے کی آزادی کا آپ مثبت استعمال کریں۔
اسلامو فوبیا کا شکار اہل مغرب اور ان کی حکومتوں کو بتائیں کہ قرآن صحیفہ قانون بھی ہے اور صحیفہ اخلاق بھی، تاریخی دستاویزبھی ہے اور سوانح کی کتاب بھی، علم نفسیات کا دفینہ بھی ہے اور علم وحکمت کا خزینہ بھی۔ پھر ان سب حیثیتوں کے بعد اوران سب حیثیتوں سے بڑھ کر قرآن ہدایت اور روشنی ہے، علم اور نورہے اور آخری وحی ہے۔ پھریہ ہدایت اور روشنی قرآن کی ہر حکایت میں، ہر حکم میں، ہر تعلیم میں اور اس کی ہر تاریخی ودستوری اور سوانحی حیثیت میں، سب میں موجود ہے۔
جس طرح اجسام میں روح موجود ہے، زبان میں صفتِ کلام موجود ہے، ذہنوں میں خیال موجود ہے اوردعا میں اثر موجود ہے اور جس طرح دوا میں شفا، گل میں خوشبو اور شاخ گل میں بادِ سحرگاہی کا نم موجود ہے۔
اہل مغرب کو بتائیں کہ قرآن اپنے بیانیے کے اعتبار سے دعا بھی ہے اور رب سے مکالمہ بھی ہے۔ قرآن کی ابتدا بھی دعا ہے اور انتہا بھی دعا ہے۔ ابتدا میں صراط مستقیم کی دعا ہے اور صراط مستقیم کی پیروی کرنے والوں کی پیروی کرنے کی توفیق کا سوال ہے۔ اور انتہا میں شیاطین جن وانس اور چیزوں کی بری خصلتوں اور تاثیر سے پناہ مانگنے کے دعائیہ کلمات ہیں۔
قرآن زندگی کے بہت ہی ٹھوس حقائق سے بھرا ہوا بھی ہے، لہٰذا قرآن میں سائنس بھی ہے اور اسی قرآن میں مافوق الفطرت واقعات بھی ہیں۔ قرآن میں ایسی چیزیں بھی ہیں جوانسان کی قوت ِادارک سے ماورا ہیں۔ قرآن میں جتنا کچھ دنیا کے بارے میں ہے اس سے کہیں زیادہ آخرت کے بارے میں ہے۔
اہل مغرب کو یہ بھی بتائیں کہ قرآن میں سیکڑوں آیات ہیں جو سائنس کا موضوع ہیں۔ بعض انسان کی اور کائنات کی تخلیق سے متعلق ہیں اور بعض کائنات وانسان کے راز ہائے سربستہ سے متعلق بھی ہیں۔ پھر انسان کی تخلیق کے جو مراحل ہیں ان سے متعلق ہیں۔
اور یہ سب سائنس کا موضوع ہیں۔ علمائے کرام نے سائنس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی ورنہ موجودہ دور تک سائنس نے جتنی ترقی کرلی ہے اس کے سہارے قرآن میں تحقیقات کا ایک نیاباب کھل سکتا تھا۔
علمائے اسلام کی مہارتیں جن موضوعات میں سامنے آئی ہیں ان میں حدیث، فقہ، لغت، عقائد، علم کلام، منطق وفلسفہ، تاریخ، صرف ونحو اور صنایع وبدایع جیسے علوم ہی رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں میں سائنسی علوم نے اپنے عروج کا زمانہ دیکھا ہے اور مسلمانوں میں اعلیٰ پائے کے درجنوں سائنسداں بھی پیدا ہوئے ہیں پھر بھی ایسا ہوا کہ قرآنی تشریحات میں سائنسی علوم کو بار نہیں مل سکا۔ یہ ایک قومی المیہ رہا اور تاحال یہ المیہ ہی ہے۔
قرآن سراپا نور ہے زندگی کا مکمل دستور ہے۔ پھر تمہارے ذہنوں میں قرآن کے متعلق کیوں اتنا فطور ہے؟ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اہل مغرب تک جب قرآن کی یہ عظمت پہنچے گی تواللہ کریم اپنے کلام کی برکت سے اہل مغرب کے دلوں کو بھی بدلے گا۔ پھر ان کے لیے بھی اسلام اور قرآن جائے پناہ ثابت ہوگا۔
دوسرا کام ہمارے حکمرانوں کے کرنے کا ہے۔ بدقسمتی سے قوم کی تقسیم اس خطرناک لیول تک جا پہنچی ہے کہ تقدیس قرآن پر بھی ہماری سیاسی جماعتوں میں کہیں اتحاد و یگانگت نظر نہیں آئی۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ قرآن کی بے حرمتی پر احتجاج پر بھی ہر ایک نے سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے اپیل کی کہ جمعہ کو یوم تقدس قرآن کریم منایا جائے گا۔ کیا اچھا ہوتا کہ وہ اسمبلی جو روز نئے قانون بناتی ہے اور سمجھ میں نہ آنے والے قوانین اور اپنے مفادات سے ٹکرانے والے قوانین کو توڑ توڑ کر دوبارہ بناتے ہیں اور ان قوانین کو بنانے میں سب متحد و منظم نظر آتے ہیں۔
کیا رب کے قرآن کے لیے یہ اتحاد نہیں ہوسکتا؟ کیا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے یہ اتحاد نہیں ہوسکتا؟کیا نبی کی پیاری جماعت اصحاب و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت و ناموس کے لیے یہ اتحاد نہیں ہوسکتا؟
کاش پاکستان کی پارلیمنٹ ایک قانون یہ بھی بناتی کہ دنیا کے جس ملک میں بھی قرآن عظیم الشان کی بے حرمتی ہوگی یا توہین رسالت اور توہین صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوگی اور وہ حکومت مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں دے گی اس ملک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کیے جائیں گے۔
اپنے سفیر کو بلایا جائے گا اور ان کے سفیر کو ملک سے نکالا جائے گا۔ مگر افسوس کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے بھی زندہ باد اور مردہ باد پر اکتفا کیا۔ حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ بروز محشر عوام اور حکمرانوں سے سوال و جواب مختلف ہوں گے۔
اللہ نے جسے جتنا اختیار دیا ہے اس سے اتنا ہی سوال ہوگا۔ مجھے اللہ نے لکھنے کا اختیار دیا ہے میں نے اپنے دل کے جذبات اس کالم کے ذریعے آپ تک پہنچا دیے۔ اللہ نے جسے حکومت دی ہے اس سے پوچھا جائے گا کہ حکومت کے باوجود آپ نے کیا کیا؟ لہٰذا سب کو وہی کردار ادا کرنا چاہیے جس کے لیے وہ جواب دہ ہونگے۔