اعلیٰ تعلیم سے جڑے چیلنجز
جامعات میں جو چیلنجز ہیں ان مسائل کو کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھا جانا چاہیے
پاکستان میں تعلیم کا بحران ایک بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اور ان سے جڑے ادارے ، پالیسیاں ، قانون سازی اور عملی اقدامات سمیت ریاستی و حکومتی ترجیحات میں کافی سنگین تضادات پائے جاتے ہیں ۔
حکومتی سطح پر یہ دعویٰ تو موجود ہے کہ ہماری ترجیح میں تعلیم سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے مگر عملی اقدامات میں نہ صرف تضادات بلکہ عدم ترجیحات کی پالیسی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری اعلیٰ تعلیم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی ساکھ کے بحران سے گزر رہی ہے۔
دنیا کے تجربات کو دیکھیں تو وہ تعلیم میں جدیدیت اور نئے نئے خیالات اور فکر کو بنیاد بنا کر کچھ بڑا کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ بالخصوص دنیا تعلیم کے جدید دور میں روایتی ، فرسودہ ، پرانے خیالات کو خیرباد کہہ کر نئے طرز کی حکمت عملیوں کو اختیار کرکے اپنی اعلیٰ تعلیم کی افادیت سے جڑے نتائج حاصل کررہی ہے ۔
ہمیں اعلیٰ تعلیم سے جڑے مسائل میں جو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے تو اس کا حل بھی غیر معمولی سطح کے اقدامات سے جڑا ہوا ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد ایک منطق یہ دی گئی تھی کہ ہم وسائل کی وفاق سے صوبائی سطح پر تقسیم کے عمل سے اعلیٰ تعلیم میں بہتر نتیجہ حاصل کرلیں گے ۔لیکن 18ویں ترمیم کے بعد جو 13برس گزرے ہیں اور اگر اس کو بنیاد بنا کر نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف گئے ہیں ۔
ہماری اعلیٰ تعلیم پر داخلی و خارجی محاذ پر سوالات ہی سوالات ہیں اور لوگ اس رائے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم بہتری کی بجائے بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے جڑے مسائل یا معاملات پر نظرڈالیں تو ہمیں چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔
ان میں جامعات کی خودمختاری اور شفافیت کا عمل ، اعلیٰ اور شفاف حکمرانی کا نظام ،تحقیقی عمل اور تعلیم میں '' فکری آزادیوں '' پر بے جا پابندیاں ،جامعات میں سیاسی و بیوروکریسی کی بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت، میرٹ کی بجائے سیاسی اقرباپروری اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر تقرریاں ، جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر سیاسی و پسند و ناپسند اور ایڈہاک پالیسی ،اعلیٰ تعلیم کے بجٹ اور وسائل میں مسلسل کمی ، تحقیق کے لیے بجٹ کا نہ ہونا ،تعلیمی نصاب میں روایتی نقطہ نظر یا حکمت کو برقرار رکھنا اور جدیدیت کو بنیاد بنا کر نصاب میں تبدیلیوں سے گریز،اسٹوڈنٹس یونین یا اسٹوڈنٹس سوسائٹیوں کی عدم فعالیت ، طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور عدم اعتمادی کا ماحول، امتحانی نظام کے روایتی طور طریقے اور انٹری ٹیسٹ کے نام پر طلبہ و طالبات کا استحصال ، تحقیقی عمل کو نظرانداز کرنا اور محض جامعات کو ڈگریوں کی تقسیم تک محدود کرنا ،وفاقی ہائر ایجوکیشن اور صوبائی ہائر ایجوکیشن اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی پالیسی ، صوبائی سطح پر وائس چانسلروں کو صوبائی ہائر ایجوکیشن سیکریٹری کے مقابلے میں کم اہمیت دینا ، جامعات کی سطح پر صوبائی ارکان اسمبلی کی جامعہ کی سینڈیکیٹ میں شمولیت ، جامعات میں مجموعی طور پر احتساب کا فقدان اور نگرانی کا کمزور نظام ، جامعات اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات کار کی کمی یا انڈسٹری کی ضرورتوں سے خود کو ہم آہنگ نہ کرنا ، نجی شعبہ جات میں جامعات کا پھیلاؤ اور ریگولیٹری باڈیز یا اتھارٹیوں کی عدم شفافیت ، تحقیقی عمل میں جعلی مقالہ جات اور سب سے بڑھ کر جامعات کی سطح پر گورننس یا حکمرانی کے بحران کا سامنا ہے ۔
جامعات میں جو چیلنجز ہیں ان مسائل کو کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھا جانا چاہیے اور نہ ہی اس کے ذمے دار محض کوئی ایک فریق ہے ۔ ہمیں الزامات سے زیادہ مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، وفاقی یا صوبائی ہائر ایجوکیشن کے وزرا ہوں یا ان کے ماتحت اعلیٰ تعلیم سے جڑے اہم ادارے یا جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز سمیت سینڈیکٹ یا سینٹ ، ڈین یا شعبہ جات کے سربراہ یا اکیڈمک اسٹاف ایوسی ایشن سب ہی اس صورتحال کے کسی نہ کسی شکل میں کم یا زیادہ ذمے دار ہیں۔
جامعات قومی مسائل کے حل کا بیانیہ کو پیش کرتی ہیں لیکن یہ کام جامعات کی سطح پر نہیں ہورہا اور نہ ہی وفاقی یا صوبائی حکومتیں یا پالیسی ساز جامعات کو قومی مسائل کے حل میں حصہ دار بناتے ہیں اور نہ ہی ان کو مشاورت کا حصہ بنایا جاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جامعات کی سطح پر ہونے والی تحقیق جامعات کے اندر تک ہی محدود رہ جاتی ہے ۔
سب سے بڑا سوال فکری آزادی کا ہے ۔ اگر بطور استاد یا تحقیق کار مجھے اپنا مقدمہ آزادانہ بنیادوں پر پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی یا مجھے ایک متبادل بیانیہ جو روایتی یا پاپولر عمل سے مختلف ہے پیش کرنے میں مسائل کا سامنا ہوگا تو نیا علم اور نئی تحقیق کہاں سے آئے گی۔ ریاستی اور حکومتی پابندیوں میں جکڑی جامعات میں فکری آزادی کا سوال اہم ہی رہے گا۔
یہ جو وائس چانسلرز کی تقرری پر سرچ کمیٹیوں کی تشکیل کا بھی معاملہ ہے اس میں میرٹ سے زیادہ سیاست غالب نظر آتی ہے ۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وائس چانسلرز کی بروقت تقرری کرنے کی بجائے ہم ایڈہاک پالیسی کی بنیاد پر قائم مقام وائس چانسلرز کے ساتھ جامعات کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ایڈہاک پالیسی کو بنیاد بنا کر وائس چانسلرز کو حکومتی سطح پر کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔
ہمیں جامعات کی سطح پر کوئی بڑے موثر تھنک ٹینک نظر نہیں آتے ہیں جہاں اکیڈمک اور پریکٹیشنرز مل بیٹھ کو جامعات اور قومی مسائل پر کوئی ہمیں متبادل بیانیہ دے سکیں ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی بھرمار ظاہر کرتی ہے کہ ان اہم شعبوں یا مراحل میں بھی طلبہ و طالبات کے سامنے بڑے اہداف کم اور ڈگریوں کا حصول ایک فیشن بن کر رہ گیا ہے ۔
کچھ لوگ جامعات پر یا وائس چانسلرز پر اعلیٰ تعلیم کے مسائل پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان معاملات کو خراب کرنے کی بڑی ذمے داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جو پہلے اپنی مداخلتوں سے جامعات کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں ۔اس لیے مسئلہ کا حل سنجیدہ نوعیت کی بنیاد پر تلاش ہونا چاہیے ۔
جامعات کی خود مختاری جو انتظامی اور مالی بنیادوں پر ہو مسائل کے حل کی طرف لے کر جاسکتی ہے۔ اسی طرح حکومتی یا نجی شعبہ میں موجود جامعات کی نگرانی ، شفافیت اور جوابدہی کے لیے ہمیں ریگولیٹری باڈیز کو مضبوط اور فعال بنانا ہوگا ۔