سوال پوچھنے کی کیا ضرورت ہے
کیا ہمیں یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟
انسان اور حیوان میں بنیادی فرق عقل کا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین مذاہب اور معاشروں کو دیکھیے ۔ اکثر جگہ دلیل اور سوالات کے ذریعے معاشرے 'جاندار نظر آتے ہیں۔
بادشاہتوں کے دوران میں بھی یونان اور روم میں عوامی اور غیر عوامی سطح پر کافی حد تک فکری آزادی دیکھنے میں ملتی ہے۔ روم کی سلطنت تو خیر ایک متحرک حکومت ہوتی تھی۔ یاد رہے کہ روم جیسی عظیم بادشاہت کرہ ارض پر کبھی دوبارہ نہیں آئی۔
رومن بادشاہ مختار کل ہوتا تھا۔ مگر وہاں کی سینیٹ ' شہنشاہ سے بھی زیادہ طاقتور تھی۔ مالیاتی امور سے لے کر انسانی حقوق' قوانین کا بنانا' سب کچھ ممبران کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ سیزر جیسا مثالی طاقتور بادشاہ بھی اسمبلی کے بغیر کچھ نہیں تھا۔
سینیٹ' اس قدرطاقتور تھی کہ شہنشاہ کو وہاں بیٹھنے کے لیے کرسی نہیں دی جاتی تھی۔ ممبران بیٹھتے تھے اور بادشاہ سامنے کھڑا ہو کر ہر سوال کا جواب دیتا تھا۔ ویسے ایک ضمناً عرض کرتا چلوں۔ رومن فوج نے یورپ ' افریقہ اور ایشیا کے کچھ حصہ پر قبضہ کیا لیکن ان کی فوج' کبھی برصغیر کی طرف نہیں آئی۔
اگر رومن فوج' برصغیر میں آ جاتی تو وسطیٰ ایشیا سے وارد ہونے والے' حد درجہ ادنیٰ درجہ کے لوگ' ہندوستان پر قبضہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ گزارش حد درجہ سادہ سی ہے۔ دنیا کی عظیم ترین قوت کا مطلق العنان حکمران بھی' عوامی رویہ کو اہمیت دینے پر مجبور تھا۔
خطوں اورمعاشروں نے اچھے ' بہت اچھے اور بیکار قسم کے تجربات سے سیکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یورپ اور شمالی امریکا' جو آج ہر طور پر مثالی معاشرے قائم کر چکے ہیں۔ تمام نے فکری' معاشی اور مذہبی آزادی حد درجہ جنگوں اور بدامنی کے بعد حاصل کی ہے۔
یورپ کے قرون وسطیٰ کے حالات دیکھیں تو آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ وہاں سائنس اور دلیل کی بنیاد پر بات کرنے پر مکمل پابندی تھی۔ مذہبی بادشاہ' یعنی پوپ کے پاس بھرپور اختیار تھا کہ کسی بھی انسان کو قتل کروا سکتا تھا۔
کسی کو بھی زندہ جلوانے کی قانونی طاقت بھی اس کے پاس تھی۔ پوپ کے پاس اپنی فوج ہوتی تھی۔یورپ کی سلطنتوںکے بادشاہ ' پوپ کی مرضی کے بغیر تخت نشین بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ سوال پوچھنے کی گستاخی گردن زنی بالکل عام سی بات تھی۔ اس طرز کے جبری معاشروں سے جان چھڑوا کر یورپ نے حقیقی اور فکری انقلاب کی طرف قدم رکھا۔
عوام کے نمایندوں کو طاقت اور حق حکمرانی دلوایا۔بادشاہوں کو ردی کی ٹوکریوں میں پھینک دیا۔ مذہبی شدت پسندی سے جان چھڑوائی اور صرف ڈیڑھ سو برس کے قلیل عرصے میں شہریوں کے لیے ہر وہ سہولت فراہم کر دی جس کا تصور کرنا بھی محال تھا۔ آج دنیا کے مفلس اور قلاش ملکوں سے لوگ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یورپ اور امریکا جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر ایک کو معلوم ہے کہ ناکامی کا مطلب' سمندر کے گہرے پانیوں میں مچھلیوں کی خوراک بننا ہے۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ آخر کیوں؟وجہ بالکل سادہ ہے کہ ترقی کے بھرپور مواقعے اور بہتر زندگی انھیں وہاں جانے پر مجبور کرتی ہے۔
بدقسمتی سے قانونی اور غیر قانونی طور پر ہمارے ملک سے بھاگنے والوں کی تعداد حد درجہ زیادہ ہے۔ کوئی بھی یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ دراصل مغربی معاشرے دلیل پر استوار ہو چکے ہیں۔ وہاں کسی قسم کا سوال پوچھنے پر کوئی قدغن نہیں۔ فکری آزادی اور انسانی حقوق ایک ایسے معاشرے کو ترتیب دیتے ہیں جہاں عام لوگوں کے لیے روزگار اور سہولتیں مہیا ہو جاتی ہیں۔
غور سے دیکھیے۔ دنیا کے اکثر ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ اپنے خطے ہی کو دیکھ لیجیے۔ ہندوستان کی توخیر مثال ہی نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ وہ ہم سے حد درجہ ترقی یافتہ ہو چکا ہے۔ عملی طور پر اب ہمارا اور ان کا موازنہ ' بنتا نہیں ہے۔
گمان تو یہ ہے کہ کہیں افغانستان ہم سے آگے نہ نکل جائے۔ اور ہمیں قرضہ نہ دینا شروع کر دے۔ کیا یہاں ' کسی بھی انسانی ذہن میں یہ سوال بلکہ سوالات نہیں اٹھتے کہ آخر ہماری بربادی اور ترقی نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں۔
ہم ترقی یافتہ ممالک کے سامنے صرف اور صرف گداگر کیوں ہیں۔ ہمارے ملک اور شہریوں کی کسی بھی ملک میں کوئی عزت کیوں نہیں ہے۔ جواب حد درجہ تلخ ہے۔ ہمارے موجودہ اور ماضی کے حکمران ' معاشرے کے رئیس ترین لوگ ہیں۔ جب یہ قیمتی ترین کپڑے پہن کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمایندوں کو ملتے ہیں۔ تو ان گوروں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ طبقہ' قرضہ لے کر ' اسے جدت سے ہڑپ کر لے گا۔تمام ممالک کے سربراہان' ہمارے حکمرانوں سے گریز کرتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم دنیا کے کسی بھی دارالحکومت میں خوش آمدید نہیں گردانے جاتے۔ ہم ایسے افراد ہیں کہ قرضہ لینے پر جشن مناتے ہیں۔ مغربی دنیا تو خیر ہمیں اندر سے جانتی ہے۔ مگر اب سوشل میڈیا نے ہمارے ہر رہنما کو بے نقاب کر دیا ہے۔
ٹی وی چینلز مکمل طور پر بے سود سے ہو چکے ہیں۔ سچ ایک دم سب کے سامنے آ جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بیس برس میں مکمل طور پر بدل چکاہے۔ مگر سرکاری سطح پر اس زبردست تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس سے پورے معاشرے میں کدورت اور جذباتیت عود کر آئی ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت یا مذہبی گروہ کو سوشل میڈیا پر پرکھ لیجیے۔ ان کا سچ اور جھوٹ چھپائے نہیں چھپتا۔ یہ معاملہ' اب کسی بھی سرکار کے لیے تازیانہ سے کم نہیں رہا۔ نہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے پرانے بیانات سے پھر سکتا ہے اور نہ ہی موجودہ وزیراعظم۔ بلکہ کئی بار بہت مشکل صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ جب کسی سیاست دان کو اس کے سابقہ متضاد بیانات ' ان کی موجودگی میں سنوائے جاتے ہیں۔
حالیہ حالات میں نیب کے متعلق وزراء ٹھیک ایک برس پہلے کیا کہتے تھے اور اب کیا فرماتے ہیں۔ یہ افراد' بڑی ڈھٹائی سے اپنے ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر چھوڑیے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ! سوشل میڈیا کا جن ' اب دنیا کی طاقتور ترین سلطنت سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر ہمارے ملک میں وقت کے پہیے کو الٹا چلانے کی بڑی کوشش ہو رہی ہے۔
اصل مقتدر حلقہ بھی اب سوشل میڈیا کی طاقت کو ناپسند کرتا نظر آتا ہے۔ اسرائیلی مندوب کا ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کے متعلق سرکاری بیان' حد درجہ اہم ہے۔ اس لیے کہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک' امریکا نہیں بلکہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل بھی بین الاقوامی سطح پر ہمارا مذاق اڑاتا ہے۔ اور ہماری نحیف سی حکومت ' اتنی جرأت نہیں رکھتی کہ اسرائیل کے خلاف کوئی مضبوط بیان ہی دے ڈالے۔
عرض کرونگا کہ سوال پوچھنے پر پابندی لگانے سے ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ حکمران طبقہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ معاشرے کے اندر کتنا لاوا ابل رہا ہے۔ ریاستی تشدد کے ذریعے انسانی ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے مفلوج تو کیا جا سکتا ہے۔ مگر مستقل بنیادوں پر ایسا کرنا ناممکن ہے۔
کیا ہمیں یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟۔ پاکستان میں دنیا کا کوئی غیر ملکی تاجر یا کمپنی ' سرمایہ کاری کے لیے تیار کیوں نہیں ہے؟ ہم' ہمسایوں سے مستقل جنگ کی صورت حال میں کیوں مبتلا ہیں؟ ہمارے رویے' اتنے غیر جمہوری اور غیر مثالی کیوں ہیں؟ بین الاقوامی سطح پر ہم مسلسل بھکاری کیوں ہیں؟ پاکستان سے ہر فہمیدہ انسان بھاگنا کیوں چاہتا ہے؟ یہ دہشت گرد آخر کون ہیں۔ انھیں کس نے پیدا کیا ہے۔
اور ہمارے ہی درپے کیوں ہیں؟ ہم سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر سادگی کیوں نہیں اپنا سکتے؟ ہمارا ہر حکومتی قدم ' ہماری اوقات سے بڑھ کر کیوں ہے؟ نوجوانوں کو سیاسی جماعتیں چارہ کیوں بنا کر رکھتی ہیں؟ ہم اپنے ملک میں معیاری ادارے کیوں نہیں بنا پائے؟ ہمارا نظام عدل اور نظام حکومت' اتنا ادنیٰ کیوں ہے؟ اس کے علاوہ ان گنت سوالات ہیں۔ جو ذہن میں آتے رہتے ہیں۔ مگر ان کو پوچھنے کا شاید اب کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔
اس لیے کہ اکثر سوالات کے جواب سب کے علم میں ہیں۔ مگر کسی کے اندر ا تنی ہمت نہیں ہے کہ مقتدر طبقے کے گریبان پر ہاتھ ڈال سکے۔ آگے کیا لکھوں ۔ میں نے اس ملک میں رہنا ہے۔ اور عمر کے اس پختہ حصے میں کسی مصیبت کو گلے نہیں لگانا چاہتا۔ لہٰذا جو ہو رہا ہے۔ وہ سو فیصد ٹھیک ہے۔
ملک اللہ کے فضل سے مثالی ترقی کر رہا ہے۔ مہنگائی تو خیر ہے ہی نہیں۔ معیشت مضبوط ترین بنیادوں پر استوار ہے۔ جب ہر معاملہ ٹھیک ہے تو فکر کی کیا بات ہے۔ اور سوال پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟