یہ قرض نہیں گلے کا ڈھول ہے
قرضوں کا پہلا عالمگیر بحران انیس سو اسی کی دہائی میں آیا
دنیا اس وقت بانوے ٹریلین ڈالر کی مقروض ہے۔شاید ہی اس وقت کوئی ایسا ملک ہو جو قرضوں کے جال سے باہر ہو۔یوں سمجھیے کہ دنیا کی آٹھ ارب میں سے تین اعشاریہ تین ارب آبادی ایسے ممالک میں رہ رہی ہے جہاں تعلیم اور صحت پر جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔اس سے کہیں زیادہ رقم سود کی ادائیگی میں جا رہی ہے۔
دو روز قبل قرضے کے بوجھ کی سنگین عالمگیر صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی تازہ مطالعاتی رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ اس وقت آدھی دنیا ترقی کی جستجو میں قرضوں کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔مالیاتی مارکیٹ کے استحکام کے نام پر اربوں انسان اس بوجھ تلے کراہ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دو ہزار گیارہ میں بائیس ممالک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔دو ہزار بائیس میں انسٹھ ممالک اس بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ سو روپے کی آمدنی میں سے کم ازکم ساٹھ روپے سود اور قسط میں نکل رہے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق غریب ممالک کو مہنگے قرض دینے والوں میں نجی شعبے کا کردار مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس بحران کی تین بنیادی وجوہات میں اول کوویڈ سے پہنچنے والا عالمی معاشی نقصان۔دوم ضروریاتِ زندگی کی مہنگائی میں مسلسل اضافہ اور تیسری وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب غریب ممالک کی روز افزوں بگڑتی حالت ہے۔جب کہ بھاری شرح سود پر زیادہ تر کمرشل قرضے مفادِ عامہ کے بجائے توازنِ ادائیگی کو برقرار رکھنے کے لیے دیے جا رہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ باون ممالک پر قرضوں کا سب سے زیادہ دباؤ ہے۔دو ہزار دس تا دو ہزار بائیس کے درمیان ایشیائی ممالک کے قرض میں چار گنا اور افریقہ کے قرضوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔سن دو ہزار سے اب تک قومی پیداوار میں تین گنا اور قرضوں کے بوجھ میں پانچ گنا اضافہ دیکھا گیا۔
بدنظمی و بدعنوانی کے گرداب میں پھنسے بہت سے ترقی پذیر ممالک نہیں جانتے کہ عوام کی فلاح کا سوچیں یا قرضوں کا سود ادا کرنے کو ترجیح دیں۔افریقہ میں چوالیس فیصد قرضہ نجی مالیاتی اداروں کے توسط سے زیادہ شرح سود کے ساتھ دستیاب ہے۔جنوبی امریکا میں چوہتر فیصد قرض نجی اداروں سے لیا گیا ہے۔
یہ قرضے ترقی پذیر ممالک کے لیے کتنے مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ افریقی ممالک کو امریکا کے مقابلے میں چار گنا اور یورپی ممالک کے مقابلے میں آٹھ گنا زائد مہنگی شرائط پر قرض اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اس بوجھ تلے گزشتہ تین برس کے دوران زمبیا ، گھانا اور سری لنکا یکے بعد دیگرے دیوالیہ ہو چکے ہیں۔
پاکستان اور مصر سمیت سولہ دیگر ممالک دیوالیہ پن کی کگار پر کھڑے ہیں۔پاکستان عین آخری وقت آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا ہنگامی قرضہ لے کے دیوالیہ پن سے بال بال بچا ۔مگر یہ لائف لائن صرف نو ماہ کے لیے پھینکی گئی ہے تاوقتیکہ اگلی منتخب حکومت مزید کڑی شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف سے نئے مالیاتی پروگرام کا سمجھوتہ کرے۔
قرضوں کے دباؤ میں اگر کوویڈ کی عالمگیر وبا نے بنیادی اضافہ کیا تو مرے پر سوواں درہ روس کا یوکرین پر حملہ ہے جس کے سبب غلے اور اشیاِ خورونوش کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کم از کم دگنا اضافہ ہو گیا ہے۔
قرضوں کا پہلا عالمگیر بحران انیس سو اسی کی دہائی میں آیا۔سبب یہ تھا کہ انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی عالمی قیمت میں یک بیک تین گنا اضافے سے افراطِ زر کا زلزلہ آیا جسے کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود بڑھانا پڑی اور شرح سود بڑھنے سے مقروض ممالک کے بوجھ کا وزن دگنا ہو گیا۔
یوں دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی امریکا کے سولہ اور دیگر براعظموں کے گیارہ ترقی پذیر ممالک نے قرض کی ادائیگی سے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
چنانچہ عالمی مالیاتی ادارے اور امیر ممالک اپنے اربوں ڈالر ڈوبنے سے بچانے کے لیے قرضوں کی ری شیڈولنگ پر مجبور ہو گئے۔ری شیڈولنگ کی شرائط کے طور پر مقروض ممالک کو تعلیم ، صحت اور دیگر فلاحی اخراجات میں خاصی کٹوتی کرنا پڑی تاکہ قسطوں کی بروقت ادائیگی بند نہ ہو۔بہت سے مقروض ممالک کی قومی آمدنی اس جکڑ بندی کے سبب انیس سو اسی سے پہلے کی سطح پر پہنچ گئی۔چنانچہ مقروض ممالک اسی کی دہائی کو گمشدہ عشرے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ جس میں قرض کا دباؤ ترقی کا امکان کھا گیا۔
نوے کی دہائی میں کئی افریقی ممالک اس قدر بوجھ تلے دب گئے کہ چار و ناچار عالمی اداروں اور امیر ممالک کو ان کے قرضوں کا ایک حصہ معاف کرنا پڑا۔مگر یہ معافی کڑی مالیاتی شرائط کے عوض ہی حاصل ہو پائی اور اسے آیندہ کے لیے مثال بنانے سے پرہیز کیا گیا۔
دو ہزار چھ تک زیادہ تر ممالک پیرس کلب کے مقروض تھے جس میں امریکا ، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، جاپان، عالمی بینک ، آئی ایم ایف اور افریقن ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ شامل ہیں۔مگر گزشتہ بیس برس کے دوران چین اور نجی ادارے بھی قرضہ دینے والوں کی فہرست میں تیزی سے ابھرے ہیں۔
اتنی تیزی سے کہ دو ہزار میں ترقی پذیر و متوسط ممالک نے اٹھائیس فیصد قرضہ پیرس کلب سے لیا جو اب گھٹ کے گیارہ فیصد رہ گیا ہے۔جب کہ اسی دورانیے میں چین سے حاصل قرضہ کی شرح دو فیصد سے بڑھ کے اٹھارہ فیصد تک پہنچ گئی اور نجی مالیاتی اداروں کے دیے گئے قرضوں کی شرح تین فیصد سے بڑھ کے گیارہ فیصد ہو گئی ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چین اس وقت سب سے بڑا عالمی ساہوکار ہے۔
کیا قرضوں اور ماحولیات کی ابتری میں کوئی باہمی تعلق ہے ؟ ماہرین کہتے ہیں کہ جب قرض دینے والا مقروض کی گردن پر گرم گرم ہوا چھوڑ رہا ہو تو قسط کے مقابلے میں ماحولیاتی تحفظ ایک مذاق سا محسوس ہوتا ہے۔
مثلاً انڈونیشیا نے اپنی کل قومی آمدنی کے چالیس فیصد کے مساوی قرض لے رکھا ہے۔چنانچہ اب انڈونیشیا قرض اتارنے کے لیے دھڑا دھڑ جنگل صاف کر کے پام آئیل کے درختوں کی صنعتی پیمانے پر کاشت کر رہا ہے۔برازیل کا قرضہ اس کی قومی آمدنی کے اسی فیصد کے برابر ہے۔
چنانچہ سویا بین کی کاشت کے لیے ایمیزون جنگلات کی اندھا دھند کٹائی روکنے والا کوئی نہیں۔اسی طرح موزمبیق نے اپنی قومی آمدنی کے ایک سو ایک فیصد کے برابر قرض لے رکھا ہے۔ چنانچہ اس نے تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش اور استعمال کے لیے آمدنی کی خاطر بین الاقوامی کمپنیوں کو کھلی ماحولیاتی چھوٹ دے دی ہے۔
اور پھر ماحولیاتی ابتری سے بچنے کے لیے ان ممالک کو دوبارہ بھاری شرح سود پر مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔
ماحولیاتی ابتری کے بارے میں شور و غل بڑھنے کے سبب اب آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں نے بھی ماحول دوست سبز چوغا پہننا شروع کر دیا ہے۔
مگر منافقت یہ ہے کہ ماحول کی ابتری کے بنیادی ذمے دار تیل اور گیس کی تلاش کے سلسلے میں آئی ایم ایف سو سے زائد ممالک کو مشاورتی خدمات فراہم کر رہا ہے جب کہ عالمی بینک نے تیل اور گیس کے ذخائر کو ترقی دینے کے لیے پندرہ ارب ڈالر کے رعایتی قرضے دیے ہیں۔اس وقت جو ممالک ماحولیاتی تباہی کی زد میں ہیں وہ سب کے سب قرضوں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔
اب سمجھ میں آتا ہے کہ بزرگ کیوں یہ دعا دیتے تھے کہ خدا ہر کسی کو بیماری ، کچہری اور قرض سے محفوظ رکھے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)