خوشی کے نام کا سکہ
سیاسی معاملات ہوں یا کھیلوں کے، یا معاشرتی مسائل ہوں بھارتی حکومت کو پاکستان اور پاکستانیوں سے ہر حال میں ....
عہد مغلیہ میں غیر ملکی سیاح ہندوستان کی اقتصادی خوشحالی دیکھ کر حیران تھے، اشیائے خورونوش مقدار میں اس قدر زیادہ تھیں کہ ان چیزوں سے کئی کئی جہاز لادے جاسکتے تھے اس کی وجہ بے پناہ دولت کا ہونا تھا۔ برنیئر سکوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ ملک میں سونے چاندی کے سکوں کی افراط تھی، اکبر نے اپنے دور خلافت میں عبدالصمد کو 1557 میں دہلی کے ٹکسال کا مہتمم مقرر کیا، اکبر کا چاندی یا سونے کا سکہ 175 گرین کے برابر ہوتا تھا، اس نے ایک چوکور روپیہ موسوم بہ ''جلالی'' جاری کیا، سونے کی مہریں دام اور روپیہ خاص سکے کہلاتے تھے۔جہانگیر اپنی ملکہ نور جہاں سے بے حد محبت کرتا تھا اسی محبت کے نتیجے میں اس نے شاہی مہر پر اس کا نام کندہ کروایا تھا اور شاہی سکوں پر بھی نورجہاں کا نام شعر کی صورت میں ملتا ہے۔
برنام نورجہاں بادشاہ بیگم زر
مختلف ممالک میں مختلف قسم کی کرنسی چلتی ہے، اومان میں اومانی ریال، بنگلہ دیش میں ٹکہ، بحرین میں بحرینی دینار، انگلینڈ میں پاؤنڈ، امریکا میں ڈالر، ہندوستان میں انڈین روپیہ اور سکے پاکستان میں کسی زمانے میں چونی، اٹھنی، روپیہ، ادھنی پائی، دو آنے، 4 آنے، دس آنے وغیرہ چلا کرتے تھے اور آج بھی سکے چلتے ہیں، ایک، پانچ اور دو روپے کے سکے۔ جب کہ ہمارے عہد کے معتبر و منفرد شاعر فضا اعظمی نے ایک انوکھا سکہ چلایا ہے اور اس سکے کا نام ''خوشی کے نام کا سکہ'' یہ ایسا سکہ ہے جسے حاصل کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے، جتنا کہ لوگوں نے سمجھا ہے، اسی وجہ سے ہمارے اپنے لوگ خوشیوں کو ترس گئے ہیں، دکھوں اور غموں سے سینہ چھلنی ہوگیا ہے، اس کی وجہ حکومت وقت کی اپنی عوام کی طرف سے بے توجہی اور بے حسی ہے۔
ساتھ میں ایک ہی ملک میں رہنے بسنے والوں کا بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہے جس کا حکم اسلام نے دیا ہے، یعنی عفو و درگزر، صبر و شکر، صلہ رحمی وغیرہ۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظرانداز کرنے اور نیکی و بھلائی کا راستہ اختیار کرنے سے روحانی مسرت ملتی ہے اور معاشرے کی فضا بھی خوشگوار اور پرنور ہوجاتی ہے۔ جناب فضا اعظمی نے اپنی سی کوشش کی ہے اور دو کتابیں بعنوان ''خوشی کی تلاش میں'' اور ''خوشی کے نام کا سکہ'' حال ہی میں لکھی ہیں مذکورہ کتب شایع ہوکر بک اسٹالوں اور ناقدین و قارئین تک پہنچ چکی ہیں۔ شاعر کی یہ شدید خواہش ہے نہ کہ اپنے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں امن وآشتی کے گیت الاپے جائیں اور ہر سو ہر شخص چین کی بانسری بجائے اس مقصدکے لیے انھوں نے یہ تحریک چلائی ہے اس تحریک کا نام ہی خوشی کا سکہ ہے۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار شاعری کے بطون میں اس طرح کرتے ہیں۔
جو خود پرستی میں گزرے وہ زندگی کیا ہے
جو اپنے آپ میں گم ہو وہ آدمی کیا ہے
مقام دیر و حرم مانع خوشی تو نہیں
ہو اشتدادکا پہلو تو خوش دلی کیا ہے
خودی کو تابع انسانیت بنانا ہے
انانیت کے مرض سے نجات پانا ہے
فضا اعظمی کی شاعری میں ایک مقصد پنہاں ہے اور وہ مقصد ہے خیر کا اور خیر کا عمل انسانیت کی طرف جاتا ہے، انھوں نے اپنی شاعری میں، انسانیت، خلوص اور محبت کا درس دیا ہے۔ انھیں اپنے ملک کے حکمرانوں سے بھی شکایت ہے اور پڑوسی ملک بھارت سے بھی کہ وہ ہر روز ایک نئی شرارت کرتا ہے اور تنگ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے۔ بے قصور چرواہوں کی جان اس طرح لیتا ہے، جس طرح چیونٹی کو پیروں تلے مسل دیا جاتا ہے آئے دن بارڈر پر اس قسم کی مذموم حرکتیں کرنا اس کا شیوہ ہے ، کشمیریوں پر تسلط بھی اس کی ہٹ دھرمی اور دہشت گردی کا کھلا ثبوت ہے۔
سیاسی معاملات ہوں یا کھیلوں کے، یا معاشرتی مسائل ہوں بھارتی حکومت کو پاکستان اور پاکستانیوں سے ہر حال میں شدید قسم کے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، ان کے بیانات سے نفرت و تعصب کی بو آتی ہے۔ اسی حوالے سے جناب فضا اعظمی نے عذاب ہمسائیگی لکھ کر پڑوسی ملک کو آئینہ دکھایا تھا اور بے حد سچائی اور منصفی کے ساتھ عوامل و مسائل کو بیان کیا تھا۔ وہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے اس طرح کے اشعار تخلیق کرتے ہیں۔
وہ قومیں جو پرانی غلطیوں کو بھول جاتی ہیں
وہ قومیں جو سبق لیتی نہیں عہد گزشتہ سے
وہ مستقبل کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر
فقط آنسو بہاتی ہیں
مگر تاریخ نابینا ہے، ظالم ہے ستم گر ہے، ستم گر ہے
وہ بداندیش ناہنجار قوموں کو
شکست و ریخ کے اندھے کنوؤں میں جھونک دیتی ہے
فضا اعظمی کی شاعری سات آٹھ عشروں پر محیط ہے، انھوں نے محض نام و نمود کے لیے شاعری کو وسیلہ نہیں بنایا ہے، بلکہ معاشرتی رویوں، ظلم و جبر، تشدد، ناانصافی، اقربا پروری، قومی و بین الاقوامی مسائل، حکمرانوں کا ہوس اقتدار اور ہوس زر، جیسے نازک اور اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے کبھی وہ مرثیہ مرگ ضمیر لکھتے ہیں:
کہانی بے ضمیری کی شروع روز ازل سے ہے
یہ قابیلی کہانی ہے ۔ یہ پہلا واقعہ ہے آدمی کی لغزش پا کا
حسد کا اور رقابت کا
ہوائے نفس اور بربریت کا
عوام الناس کے مابین نفسانی عداوت کا
اور کبھی ''قصہ کرسی کا'' کو صفحہ قرطاس کی نذر کردیتے ہیں اور حکمرانوں کی نااہلی و خودغرضی کو بے حد نفاست اور درد مندی کے ساتھ شعری پیراہن میں ڈھال دیتے ہیں۔ ''زوال آدم'' میں آدم کے زوال کی کہانی یوں بیان کی ہے۔
تم نے اس دہر کو پاتال بنا رکھا ہے
بھوک اور پیاس سے سڑکوں پہ تڑپتے ہوئے لوگ
قحط و افلاس کی چکی میں سسکتے ہوئے لوگ
ملک گیری کی ہوس کے لیے لڑتے ہوئے لوگ
باد و باراں کی اذیت میں بکھرتے ہوئے لوگ
فضا اعظمی کو دنیا بھر کے مظلوم انسانوں سے ہمدردی ہے انھوں نے لوگوں پر ہونے والے قہر و جبر کو شدت سے محسوس کیا اور اسی احساس نے ان سے ''خاک میں صورتیں'' جیسی کتاب لکھوادی اور اسی کتاب پر راقم السطور کا مقالہ کتابی شکل میں بعنوان ''خاک میں صورتیں'' اور ''اردو شاعری میں تصور زن'' منصہ شہود پر آچکا ہے۔ یہ کتاب دنیا بھر کی خواتین پر ہونے والے تشدد اور بے انصافی پر ایک اہم کتاب ہے اور اس کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسی کہ قرۃ العین حیدر کے ناول ''اگلے جنم مجھے بٹیا نہ کیجیو'' کی ہے۔
فضا اعظمی صاحب 16 شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ انگریزی اور قانون کی کتابیں علیحدہ ہیں۔ فضا اعظمی نے موضوعاتی اور طویل نظمیں لکھی ہیں جو زیادہ تر مسدس کی شکل میں ہیں۔ وہ انسانیت کو زندہ و تابندہ دیکھنے کے خواہش مند ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت اپنی شاعری کے ذریعے کرکے انھوں نے قلم کا حق ادا کردیا ہے۔ مسرت کے بارے میں بے انھوں نے دل کی گہرائیوں سے دعائیہ اشعار لکھے ہیں جن میں آہ و سوز کی کیفیت اجاگر ہوتی ہے:
میں مطمئن تھا کہ دنیا جہان فانی ہے
یہ اک لمحہ ہے، پل بھر کی اک کہانی ہے
مرے جہان کے مالک مری حیات کے رب
خطا معاف بڑی تلخ زندگانی ہے
خدائے پاک اسے یا تو مختصر کردے
وگرنہ فیض مسرت سے بہرہ ور کردے