ٹیلی پیتھی اور شعور مطلق
شعور اور لاشعور کیا ہیں؟ صاف اور سیدھے طریقے پر اس کا بیان ممکن نہیں ....
اکثر قارئین ٹیلی پیتھی سے متعلق اب بھی ابہام کا شکار ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں سب سے زیادہ رسپانس جو قارئین کی طرف سے ملتا ہے وہ ٹیلی پیتھی سیکھنے کا عمل ہے۔ یقیناً ٹیلی پیتھی ایک حقیقی علم ہے لیکن ہم پہلے بھی ان ہی صفحات پر بحث کرچکے ہیں کہ ٹیلی پیتھی کا حصول کس قدر مشکل امر ہے، ہاں یہ بات بھی صحیح ہے کہ کچھ افراد کو یہ علم قدرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اور وہ تاعمر اس پر قادر رہتے ہیں لیکن ان افراد کا ڈھونڈ لانا شاید اس علم کے حصول سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہو کہ صاحب علم حضرات اکثر اسرار کے پردوں میں چھپے رہتے ہیں۔
ٹیلی پیتھی کہتے ہیں اپنے خیال کی لہریں دوسرے کے دماغ تک پہنچا دینا اور دوسرے شخص کی دماغی لہروں کو وصول کرلینا۔ خیال خوانی بھی اسے ہی کہتے ہیں اور یہی کشف ہے۔ ٹیلی پیتھی کی صلاحیت ہر شخص میں موجود ہے بلکہ تمام جانداروں میں یہ استعداد کارفرما ہے۔ ٹیلی پیتھی پر دنیا بھر کے نفسیاتی تحقیقات کے اداروں میں وسیع تجربات کیے گئے ہیں، ان تجربات سے ٹیلی پیتھی کی حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے۔ ارتکاز توجہ کی تمام مشقیں تربیت ذہن کے لیے کی جاتی ہیں مگر خود ذہن کی ماہیت کافی پیچیدہ ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ موٹر کی بیٹری سے ایک ہی وقت میں کئی چیزیں برقی قوت حاصل کرتی ہیں، یہ سب چیزیں اپنی حرکت و کارکردگی کے لیے ایک ہی مرکز سے فعال و سرگرم ہوتی ہیں، ذہن بالکل اسی بیٹری کی طرح ہے، مثلاً موٹر کی لائٹ، موٹر کا ہارن اور خود موٹر کی باقی مشینری، یہ سب چیزیں اپنے کام کے لیے ایک ہی جگہ سے قوت حاصل کرتی ہیں، ذہن کی حیثیت اسی بیٹری کی ہے، جس طرح سے لائٹوں، ہارن اور موٹر کا تعلق اس برقی قوت پیدا کرنے والی بیٹری سے ہے، اسی طرح ذہن کا تعلق ذہن مطلق یا شعور کائنات سے قائم ہے۔ ہم اس سے ہر قسم کی طاقت اور عقل حاصل کرتے ہیں اور اسی کی وجہ سے زندہ ہیں۔
لہٰذا ہماری ترقی کا راز اس بات میں ہے کہ ہم معلوم کرلیں کہ اس قوت سے ہم اپنی بہتری کے لیے کس طرح مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے تصور کے ذریعے اس قوت کائنات، شعور اور ذہن مطلق سے اعانت حاصل کرتے ہیں۔ یہ ''ذہن مطلق'' انسان میں دو طرح کام کرتا ہے، ایک حصہ تو صرف انسان کے ظاہری اور بیرونی ماحول کے لیے عمل کرتا ہے، ذہن کے اس حصے کو ہم شعور یا ظاہری دماغ کہتے ہیں اور عالمی ذہن (شعور کل) کا دوسرا حصہ ہمارے لاشعور سے متعلق ہے۔
شعور کی سرگرمیوں سے ہم برابر واقف ہوتے رہتے ہیں، لیکن لاشعوری اعمال پر ہمارے ارادے کی کوئی گرفت نہیں ہے۔ بہت سے جسمانی اعمال ایسے ہیں جو خودکار طریقے پر عمل کرتے ہیں اور ہم ان کو بالعموم اپنی مرضی کے مطابق استعمال نہیں کرسکتے مثلاً انسانی جسم میں خلیات کی ٹوٹ پھوٹ اور دوبارہ تشکیل، یا نبض کی جنبش اور قلب کی دھڑکن، یا نظام تنفس اور نظام دوران خون کا عمل۔ درحقیقت جسم میں بقائے زندگی کا دارومدار لاشعوری نظام پر ہے۔
شعور اور لاشعور کیا ہیں؟ صاف اور سیدھے طریقے پر اس کا بیان ممکن نہیں، کیونکہ نہ ہم اب تک شعور کی حقیقت سے واقف ہیں نہ لاشعور کی ماہیت سے۔ عام طور پر تو ظاہری دماغ اور مخفی دماغ یعنی شعور و لاشعور دونوں بجائے خود الگ الگ اپنا کام کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ مخفی دماغ (لاشعور) کو ظاہری دماغ یعنی شعور کے ذریعے قابو میں لائیں۔ مثال کے طور پر مخفی دماغ آپ کے معدے اور ہاضمے کا خیال رکھتا ہے، لیکن کبھی کبھی گڑ بڑ بھی ہوجاتی ہے، مثلاً معدہ ہضم غذا سے قاصر رہتا ہے تو ہم شعور کی مدد سے معدہ کا علاج کرتے ہیں اور معدہ کا فعل صحیح اور درست ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنے شعور کو اس کی تربیت دے سکتے ہیں کہ وہ لاشعور سے اپنے احکام کی تعمیل کرائے۔
کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی جو مشقیں ہم اپنے کالموں میں پیش کررہے ہیں ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ ذہن کو مسخر کرکے خیال اور توجہ میں یکسوئی پیدا کی جائے۔ جب آپ کسی شے یا تصور پر اپنی تمام تر توجہ مبذول کردیتے ہیں تو ذہن بار بار بھٹکتا اور بغاوت کرتا ہے، ادھر ادھر کے خیالات ذہن پر یلغار کردیتے ہیں، توجہ، مرکز توجہ (جس چیز پر آپ کی نظریں اور تصور جما ہوا ہے) سے باہر ہٹ جاتی ہے اور آپ پھر ذہن کو ایک ہی نقطے پر مرکوز کردیتے ہیں۔ یہ ہے تربیت ذہن کا طریقہ۔ بے شک ابتدا میں یہ عمل بے حد تھکا دینے والا ہوتا ہے اور آدمی عجب قسم کی بے زاری اور اکتاہٹ محسوس کرتا ہے لیکن رفتہ رفتہ ذہن کو یکسوئی کی عادت پڑ جاتی ہے اور ہماری گرفت لاشعور پر محکم اور مستحکم ہوجاتی ہے، اور انجام کار آدمی ذہن کی تسخیر پر قادر ہوجاتا ہے اور اسے اپنی مرضی سے استعمال کرسکتا ہے۔
ابھی ہم نے شعور کل یا ذہن مطلق کا ذکر کیا۔ شعور کل اس مخفی مگر خبیر و بصیر قوت کو کہتے ہیں جو پورے نظام کائنات کو (ذرے سے لے کر سورج، قطرے سے لے کر سمندر اور جمادات سے لے کر انسان تک کو) نہایت حسن و خوبی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ ہم سب کے ذہن اس ہمہ گیر کائناتی شعور سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب انفرادی ذہن کا براہ راست رشتہ اس ہمہ گیر کائناتی شعور سے قائم ہوجاتا ہے تو حیرت ناک کرشمے ظہور میں آتے ہیں۔ جن لوگوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ شعور مطلق ہی سے فیضان حاصل کرکے اس منصب پر فائز ہوسکے ہیں۔
وجدان، القا اور الہام اسی شعور مطلق کے فیوض اور کرامات ہیں۔ یہ شعور مطلق (جو پوری کائنات کے عقب میں اور اس کے اندر رواں دواں ہے) اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار انفرادی ذہن کے ذریعے کرتا ہے۔ شاعری، مصوری، موسیقی، مجسمہ تراشی، فلسفہ طرازی، تاریخ نگاری، سیاست کاری، سائنسی ایجادات، علمی نظریات غرض فرد کے ذہن کا ہر تخلیقی کارنامہ شعور مطلق کی دین اور اس کا عطیہ ہے۔ شعور مطلق سے ایک برقی مقناطیسی رو لاشعور سے ہوتی ہوئی شعور تک آتی ہے اور ہم عظیم الشان کارنامے انجام دینے کی امنگ اپنے اندر پاتے ہیں۔ اس موضوع پر مزید بحث ہم اگلے کالم میں کریں گے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)