ڈیما گوگ Demagogue کیا ہے

تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ڈیموگوک قیادت ان ملکوں میں زیادہ موثر ہوتی ہے جہاں سیاسی نظام تلاطم کا شکار ہو


سرور منیر راؤ July 16, 2023
[email protected]

ڈیماگوگ ایک ایسے رہنما کو کہتے ہیں جس کا کوئی نظریہ نہ ہو، وہ صرف عوام کو وقوف بناتے اوران کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ لوگ ان کی باتوں پر اعتماد ہوتے ہیں۔لوگ ان کی باتوں پر اعتماد کر کے انھیں اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں۔

ایسے رہنما ملک و قوم کو کوئی روڑ میپ دینے کے بجائے وقتی مقاصد کے گرد گھوماتے رہتے ہیں، جیسے ایک مداری مجمع پر اپنی باتوں سے سحر طاری کر دیتا ہے اور مجمع میں موجود ایک قابل ذکر تعداد اس کی باتوں پر یقین کر لیتی ہے۔ ڈیما گوگ لیڈروں کی واضح مثال ہٹلر اور مسولینی کی ہے، جنھوں نے اپنی قوم کے جذبات کو ایک مخصوص ایجنڈے پر ابھارا اور سطحی خیالات پر نظام استوار کر کے اپنے ملک اور قوم کو بالآخر دلدل میں پھینک دیا۔

ڈیموگاگ یونانی زبان کا لفظ ھے۔''ڈیمو'' کا مطلب عوام اور ''گاگ'' کا مطلب حکمران یا لیڈر ہے۔ یونان ہی وہ ملک ہے جہاں سب سے پہلے اسٹیٹ یا ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔ علم سیاسیات کے بانی افلاطون اور ارسطو کا تعلق بھی یونانی سے تھا۔ یونان کی ریاستوں کے ایسے حکمران یا سیاستدان جو عوام کے جذبات سے کھیلتے تھے، انھیں ڈیموگوک کا خطاب دیا گیا۔ یہ سیاستدان اپنے فن خطابت کے ذریعے عوام کے جذبات کو اپنے استحصالی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ صدیوں پہلے استعمال ہونے والے اس لفظ کو سیاست میں اب تک تسلسل سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈیموگاگ قیادت اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو متاثر کرتی ہے۔ وہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جو لوگوں کو متاثر کرے اور انھیں سبز باغ دکھائے۔ ڈیموگاگ قیادت میں کرشمہ سازی کی خصوصیات ہوتی ہیں، اس لیے وہ عوام میں خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ وہ حقائق اور شہادتوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، وہ دلیل سے بات کرنے کی بجائے جذبات کو استعمال کرتے ہیں۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ڈیموگاگ قیادت ان ملکوں میں زیادہ موثر ہوتی ہے جہاں سیاسی نظام طلاطم کا شکار ہو عوام غیر مطمئن ہوں۔

ڈیماگوگ قسم کے لیڈروں کی نمایاں خصوصیات یا نشانیاں کچھ اس طرح ہیں۔ ڈیموگاگ قیادت کی سب سے بڑی پہچان ان کا پاپولزم ہے۔ڈیموگوگ کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ مسائل کے حل کی بجائے عوام کو وہ ایسا منظر نامہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو ان کا دلکش خواب ہوتا ہے۔جس سے عوام تو خوش ہوجاتے ہیں لیکن وہ خواب کبھی سچے ثابت ہوتے ہیں اور مسائل کبھی حل نہیں ہوتے ہیں۔

ڈیماگوگ لیڈر، عوام کو خوف اور غصہ دلا کر آپس میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ان کی کوشش ھوتی ھے کہ وہ شخصیت پرستی کے ذریعے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کریں۔ ڈیماگوگ ایسے لوگ ساتھر کھتیہیں جو ہر وقت ان کی تعریف کریں۔انھیں ایک اوتار بنا کر لوگوں میں پیش کریں، میڈیا میں ان کو ایک فرشتہ صفت شخصیت کے طور پر پیش کیا جاے۔

ڈیموگوگ کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ دلیل نہ سنیں بلکہ جذبات سے سوچیں۔ خابی مہم کے دوران ڈیموگوک لیڈر اپنی کارکردگی بیان کرنے کی مظلومیت کا سہارا لے کر ووٹ اکٹھے کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ وہ اپنے منشور پر بات کرنے کی بجائے دوسروں کی کردار کشی کو انتخابی مہم کا حصہ بنائیں گے۔

جھوٹے وعدیے کرنا اور اپنے قول سے پھر جانا ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔ ڈیماگوگ کا کوئی واضح نظریہ نہیں ھوتا۔ وقت، حالات اور اپنے مفادات کے تابع نظریات تبدیل کر لیتے ہیں۔ان کی دوستی اور تعلق سب ان کے ذاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ ڈیماگوگ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر اصول توڑ دیتے ہیں۔الیکشن ہاریں تو دھاندلی کا راگ الاپیں گے اور اگر جیت جائیں تو اسے اپنی کرشماتی شخصیت کا نتیجہ قرار دیں گے۔ ڈیماگوگ لیڈر کبھی تنقید برداشت نہیں کرتے۔

تنقید کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے بد زبانی یا گالی گلوچ پر اتر ائیں گے۔ڈیماگوگ لیڈر اپنے فالورز کو ہمیشہ یہ کہتے رہیں گے کہ مخالفین اسے کسی نہ کسی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔مخالفین اسے زہر دے دیں گے یا گولی مار دیں گے۔ ڈیماگوگ لیڈر ہر مشکل مسلہ کا سادہ حل بتاتے ہیں جو اصل میں حل نہیں ہوتا لیکن مقصد عوام کو بیوقوف بنانا ہوتا ہے۔ ڈیماگوگ لیڈرشپ کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ اگر کسی قسم کے جذبات دکھاتے بھی ہیں تو صرف دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں۔

تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ڈیموگوک قیادت ان ملکوں میں زیادہ موثر ہوتی ہے جہاں سیاسی نظام تلاطم کا شکار ہو،عوام غیر مطمئن ہوں اور سیاسی قیادت پر عوام کا اعتماد نہ ہو۔تاریخ اقوام عالم میں بہت سے ایسے لیڈر گزرے ہیں جن کو محققین نے ڈیموگوپ کی فہرست میں شامل کیا ہے ان میں جرمنی کے ہٹلر، سوویت یونین کے اسٹالن، اٹلی کے میسو لینی، وینزویلا کے ہوگو شاویز شامل ہیں۔

اگر ہم ایشیائی ممالک کی قیادتوں کا اس حوالے سے جائزہ لیں تو تاریخ دانوں نے کئی حکمرانوں کو ڈیموگوک کا خطاب دیا ہے، ان میں فلپائن کے صدر روڈ ریگو ڈو ٹرٹی، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی شامل ہیں۔پاکستان کے حوالے سے جن حکمرانوں میں ڈیموگ کی خصوصیات پائی گئی ہیں ان میں پاکستان کے دو سابق وزیراعظم شامل ہیں۔ دیکھنا ہے کہ تاریخ ان کو حتمی طور پر کس فہرست میں شامل کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں