تین ماہ کے لیے آئی نگراں کے پی حکومت کو اقتدار سنبھالے چھ ماہ ہوگئے
عام انتخابات کا انعقاد اور نئی حکومتوں کے قیام تک مزید تین ماہ گزرنے پر نگران حکومت کا عرصہ اقتدار 9 ماہ تک ہوجائیگا
تین ماہ کے لیے کاروبار حکومت سنبھالنے والی خیبرپختونخوا کی نگران حکومت کو اقتدار سنبھالے 6 ماہ ہوگئے جو اپنی 90 دنوں کی آئینی مدت کے بعد بھی قائم رہنے کے باعث تنازعات کا شکارہوکر رہ گئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے سمری 17 جنوری 2023ء کو گورنر کو ارسال کی تھی جس پر گورنر حاجی غلام علی نے 18 جنوری کو دستخط کیے اور اسمبلی تحلیل ہوگئی۔
صوبے کے سینئر بیوروکریٹ اعظم خان نے 21 جنوری کو نگران وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا تھا جس کے مطابق صوبائی اسمبلی کے انتخابات ماہ اپریل میں منعقد ہونے تھے تاہم مذکورہ انتخابات صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور دیگر وجوہات کی بناء پر تاحال منعقد نہیں ہوسکے۔
صوبے میں نگران حکومت کو قائم ہوئے 177 دن ہوچکے ہیں جبکہ اسمبلی کی تحلیل کو چھ ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے تاہم تاحال صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صورت حال واضح نہیں اور قومی اسمبلی کی اگست میں تحلیل اور عام انتخابات اکتوبر میں ہونے کی صورت میں صوبے کی نگران حکومت، منتخب حکومت کے قیام تک مزید ساڑھے تین ماہ اقتدار سنبھالے رکھے گی۔
عام انتخابات کا انعقاد نومبر میں ہونے کی صورت میں یہ عرصہ مزید ساڑھے چار ماہ تک پھیل جائے گا جس سے صوبہ کی نگران حکومت ساڑھے نو سے ساڑھے دس ماہ تک اقتدار میں رہے گی۔
نگران حکومت کی آئینی مدت 90 دن ہوتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے اسے انتخابات کرانے ہوتے ہیں تاہم انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے اعظم خان کی نگران حکومت کو لمبی اننگ کھیلنے کا موقع مل گیا۔
اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے ذرائع نے رابطہ کرنے پر واضح کیا کہ نگران حکومت کا کام انتخابات کے انعقاد کے بعد اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے سپرد کرنا ہوتا ہے، انتخابات کا انعقاد نگران حکومت نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کرنا ہے، الیکشن کمیشن جب بھی انتخابات کا انعقاد کرتا ہے نگران حکومت اس کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرے گی۔
نگراں حکومت کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ اگر نگران حکومت 90 دنوں کے بعد اقتدار سے الگ ہوجاتی ہے تو کیا اس سے صوبہ ایک بہت بڑے بحران کا شکار نہیں ہوجاتا؟ ہم نے تو صوبے کو بحران سے بچایا ہے، اب انتخابات اکتوبر میں ہوتے ہیں یا نومبر میں، جب بھی انتخابات منعقد ہوں گے ہم اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرکے رخصت ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں بھی کیس زیر سماعت رہے اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے الگ الگ طور پر اس ضمن میں عدالتوں سے رجوع کیا جبکہ اس دوران صوبائی اسمبلیوں کی بحالی پر بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں غور کیا گیا جس کے لیے عدالتوں سے رجوع کیاجانا تھا تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔