کیا ارسطو جاہ بننا چاہیے
ہمارے اندر ’’حق حکمرانی‘‘ اس کے پاس رہے گا جو طاقتور ہے، یہ سوچ رچ بس چکی ہے
1857 کا سال' برصغیر کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر گیا۔ ایسی جوہری تبدیلی جس کے اثرات آج تک موجو د ہیں۔ اس جنگ کے کئی پہلو تھے۔ مگر ایک عنصر حد درجہ غور طلب ہے۔ عام لوگوں میں ' اس واقعہ کو جنگ آزادی کا عنوان دیا جاتا ہے اور بعض افراد ''غدر''کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ لا حاصل بحث ہے کہ یہ دراصل تھا کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حد درجہ اہم واقعہ کو ''غدر'' گرداننے والے' اسی خطے میں عملاً کامیاب ہو گئے۔ اور اس جدوجہد کو ''آزادی کی جنگ'' قرار دینے والوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ ان کی نسلیں برباد کر دی گئیں۔ انگریزوں کی مدد کرنے والے خاندان آج تک شاد ہیں۔
بلکہ مسلسل ہر حکومت کا حصہ ہیں۔ ہمارے خطے کے گدی نشین' بڑے زمیندار' سرکاری ملازم جو برطانوی راج کی مدد کرتے رہے۔1947سے لے کر آج کی تاریخ تک ہر طاقتور فریق کے ساتھ ہیں اور کامیاب ہیں۔
ڈیڑھ سے دو صدیاں پہلے برطانیہ' طاقتور ترین تھا۔ ہندوستان میں اس کا ثبوت دیکھنے کو ملتا ہے۔ مقامی راجہ' مہاراجہ ' بادشاہ یا سلطان' ان سے شکست کھاتے رہے۔
اسباب کچھ بھی ہوں، برطانیہ برصغیر میں کبھی بھی شکست خوردہ نہیں رہا۔ 1857کی جنگ کے جو بھی اسباب تھے' ان کے نتائج بلا خیز رہے۔ مقامی علاقوں کی تقدیر تہہ و بالا کر دی گئی۔ غدر یا جنگ میں مخالفت یا مدد کے کلیہ پر کسی مذہب یا سماجی رویوں کی چھاپ نہیں تھی۔ کہنے کو تو دہلی پر مسلمان بادشاہ تھا۔ مگر دولت پر قبضہ ہندو کاروباری طبقے کاتھا۔
اس دور کی خط و کتابت یا حالات ' برٹش لائبریری یا اصل حوالہ جات سے پڑھے' تو ذہن منجمد ہو جاتا ہے۔ غور طلب بات ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے نزدیکی ساتھیوںں میں سے جو جو افراد اس پر آشوب دور میں ''راج'' کے ساتھ رہے، وہ ہماری نظرمیں غدار ٹھہرے۔ مگر انگریزوں نے جنگ جیتنے کے بعد انھیں جاگیروں اور سونے چاندی میں تول دیا۔
ایک کردار کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ تاکہ گزارش کرنے میں آسانی رہے۔ سر سید احمد خان انگریزوں کے مرتے دم تک وفادار رہے۔ مگر دہلی میں بادشاہ کے ساتھ اہم ترین عہدوں پر فائز چند درباریوں نے آنے والے طوفان کی طاقت کو پہچان لیا اور اپنی ساری قوت مضبوط فریق کے پلڑے میں ڈال دی۔ ان میں منشی سید رجب علی بھی تھا۔
یہ دہلی کی تفصیل ایسٹ انڈیا کمپنی کے میجر ہڈ سن کو بھیجا کرتا تھا۔کیوبراؤن (Cave Brown) اپنی ایک تالیف میں رجب علی کی اہلیت اور اس کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ''مولوی اگرچہ کٹر مسلمان تھا مگر وہ ایسی وفاداری اور سرگرمی کے ساتھ' جس کا اس بحران کے دور میں اندازہ لگانا مشکل ہے' شہر کی ہر قسم کی خبریں ' جن کا جاننا ہمارے لیے ضروری تھا، شہر کے عین وسط میں رہتے ہوئے روزانہ ارسال کرتا تھا۔
وہ کاغذ کے پرزوں کو کپڑوں کی تہوں میں سی کر یا چپاتیوں' جوتوں کے تلووں' پگڑی کی تہوں میں کہیں نہ کہیں اس طرح چھپا دیتا تھا کہ وہ پکڑے نہ جا سکیں۔ اس کا طریقۂ کار اس قدر اعلیٰ تھا کہ اس پر شک کا ہلکا سا گمان بھی نہ ہوتا تھا۔
شہر میں رجب علی اور کیمپ میں ہڈسن اس طرح تھے جیسے بجلی کی تار کے دو سرے' اور انھی کے ذریعے باغیوں کے منصوبوں اور ان کی نقل و حرکت کی انتہائی قابل اعتماد اطلاعات روزانہ مہیا ہوتی تھیں''۔
اس کے عوض منشی رجب علی کو پانچ ہزار روپیہ' جاگیر اور انعامات سے نوازا گیا ۔ کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ خطاب کیا تھے۔ ''ارسطو جاہ'' اور ''خان بہادر'' جیسے بلند القاب دیے گئے۔
منشی آخری عمر تک اپنے آپ کو ''ارسطو جاہ'' کہلواتا رہا۔ بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری بھی' اسی ارسطو جاہ کی اطلاع پر ہوئی۔ بہر حال قدرت کے اٹل اصول کے مطابق انگریز سرفراز ہوئے اور کمزور طقبہ ہار گیا۔
دوبارہ عر،ض کر رہا ہوں کہ قطعاً اخلاقی بات نہیں کر رہا۔ بلکہ یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ہمارے بدنصیب خطے میں طاقتور ہی ہمیشہ کامیاب ہوا ہے۔ ویسے یہ دنیا میں بھی ازلی اصول ہے۔ جب مسلمان طاقتور تھے تو اس وقت کی سوپر پاور' ایران اور روم' ان کی ٹھوکروں میں تھیں۔ پھر یہ بھی چشم فلک نے دیکھا' کہ عثمانی سلطنت کا آخری سلطان' کیسے دربدر ہوا۔ اس ابدی اصول کو ''علم'' نے کافی حد تک تبدیل کیا ہے۔
جدید تحقیق ' سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس لوگوں نے جدت کی بنیاد پر قوت حاصل کی۔ جارج ایڈیسن' مادام کیوری اور آئن سٹائن جیسے سائنس دان تو صدیوں بعد پیدا ہوتے تاہم آج بل گیٹس اورسٹیو جابز نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اہمیت اور سطوت حاصل کی۔ مگر یہ جوہری علمی تبدیلی' ہمارے خطے میں پنپ نہیں سکی۔ ہمارے معاشرے میں سرکاری کارندوں کو جو اہمیت حاصل تھی اورہے، اہل علم کو ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہے۔
کالج کا پروفیسر کی علمی قوت کے مقابلے پولیس تھانے کے ایک انچارج کا رعب و دبدبہ کہیں زیادہ ہے۔مسئلہ صاف سا ہے، جو طاقتور ہے' آپ کو فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے، ہمارے سماج میں اسی کو غلبہ حاصل ہے۔ صحیح یا غلط کی بات نہیں کر رہا، حقیقت عرض کر رہا ہوں۔
آج زرداری صاحب حقیقت سمجھ رہے ہیں، بے نظیر بھٹو صاحبہ' جب تک مقتدر طبقہ سے لڑتی رہیں، عوامی طاقت ہونے کے باوجود' اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط نہ کر سکیں، انھیں ریاستی اداروں اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی کسی نہ کسی طور مخالفت و مزاحمت کا سامنا رہا۔
ان کی شہادت کے بعد' زرداری صاحب نے درباری سیاست کے سارے اصول اپنا لیے۔ انعام میںانھیں سندھ کی حکومت مل گئی ، ان کا یہ فقرہ کہ ہم لوگ تو ''درویش'' لوگ ہیں، ہمیں جس طرح چلنے کا کہا جاتا ہے، سوال پوچھے بغیر چل پڑتے ہیں، حد درجہ اہم ہے۔ اور یہ اصول ملک کے ہر شعبہ میں یکساں طور پر لاگو ہے۔
جب جب نواز شریف نے طاقتور فریق کے سامنے تھوڑی سے جنبش کی، تو وہ نہ صرف اقتدار سے محروم کیے گئے، پابند سلاسل ہوئے، جلا وطن ہوئے۔ پھر مقتدر لوگوں کی آشیر باد سے برادر خورد اقتدار میں آگئے۔
یہ ایک واضح ترین اشارہ تھااور ہے کہ اگر مزے کرنے ہیں تو اپنے آپ کو بالادست نہ تصور کرو۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ وزارت عظمی اگلی مرتبہ بھی ''برادر خورد'' کی طرف جانے کے وسیع امکانات موجود ہیں، وجہ صرف ایک کہ طاقتور طبقہ کے سامنے کوئی جائز سوال تک نہیں کرنا۔ایسی سعادت مندی کسے اچھی نہیں لگتی۔
خان صاحب کی سیاسی اٹھان اور پھر زوال' اسی کلیہ کی بدولت ہوا۔ جب تک حقیقی حکمرانوں کو یقین تھا کہ وہ اچھے بچے ہیں۔ وزارت عظمیٰ ان کی جیب میں ڈال دی گئی۔ غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے حقیقی طور پر اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا۔
نقصان آپ کے سامنے ہے۔ عوامی مقبولیت سے آج تک ہمارے ملک میں نہ کوئی وزیراعظم بنا ہے اور نہ بنے گا۔ خان صاحب نرگسیت اور خود پسندی میں کافی آگے نکل گئے۔ لہٰذا ان کو معقول سبق سکھا دیا گیا اوریہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
دربار میں طاقتور کون ہے، اس نقطے کو سمجھنا اہم ترین ہوتا ہے۔ اس کے بعد راستہ تلاش کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ اگلے کئی برس تک ہم مل کر بھی اس برہنہ سچ کی نفی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم آج بھی ایک دقیا نوسی سوچ کے حامل ہیں۔
لہٰذا ہمارے اندر ''حق حکمرانی'' اس کے پاس رہے گا جو طاقتور ہے، یہ سوچ رچ بس چکی ہے مگر سمجھنے کی بات ہے کہ جن ممالک نے ترقی کی ہے ' اس قدیم اصول کی نفی سے کی ہے۔ انھوںنے لوگوں کو اپنے حاکم چننے کا بھرپور موقع دیا ہے۔ آئین اور قانون کو شخصیات سے بالا تر رکھا ہے۔
اپنے معاشروں میں کمزور طبقوں کی بھرپور مدد کی ہے۔ طاقتور کے ہاتھ میں شمشیر کو کبھی برہنہ نہیں ہونے دیا۔ آج مغربی ممالک حد درجہ مضبوط ہیں۔
ہمارے جیسے بے اصول ملک' بھرپور طریقے سے ذلت میں مبتلا ہیں۔ یہاں جب تک آپ منشی رجب علی نہیں بن جاتے ۔ آپ کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ غدار کون ہے اور محب وطن کون، اس کا فیصلہ بھی مقتدر طبقے نے کرنا ہے۔ لہٰذا سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سمجھنے کی حاجت ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ''ارسطو جاہ'' بننے کو دل نہیں چاہتا؟