بارش لاہور اور گردش زمانہ
انسان نے قدرت کے اس دائمی نظام گردش کا مشاہدہ کر کے اس کے ساتھ زندگی کو ایڈجسٹ کیا ہے
پاکستان میں مون سون سیزن پہلی بار متعارف نہیں ہوا ہے' نہ ہی نظام قدرت نے کوئی غیرمعمولی انگڑائی لی ہے کہ بادل پھٹ پڑے ہیں اور پانی کرہ ارض پر پھیل گیا ہے' ہر سال ساون بھادوں برستا ہے اور کھل کر برستا ہے' ندی نالے ابلتے ہیں اور دریاؤں میں طغیانی آتی ہے۔
ہزاروں لاکھوں برس سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ سردیوں میں بھی بارشیں ہوتی ہیں اور کبھی کبھی تو جھڑی لگ جاتی ہے۔ انسان نے قدرت کے اس دائمی نظام گردش کا مشاہدہ کر کے اس کے ساتھ زندگی کو ایڈجسٹ کیا ہے ۔
نظام قدرت کو بدلا نہیں جاسکتا،بس اس کے مطابق زندگی کو رواں رکھنا ہی انسانی شعور و دانش کا اوج کمال ہے۔
آج جنھیں ہم ترقی یافتہ اقوام کہتے ہیں' اس کا راز یہی ہے، ان قوموں کے رہبروں نے قدرت کے نظام گردش کو سمجھا، پھر اس کے مطابق شہروں اور دیہات کا انفرااسٹرکچر بنایا، اس انفرااسٹرکچر کو اپ ڈیٹ اور رواں رکھنے کے لیے ڈیپارٹمنٹ قائم کیے، افسر و ملازمین رکھے۔
یوں وہ اقوام ترقی یافتہ کہلائیں، وہاں مون سون کی بارشیں ہوں یا بے موقع کی بارشیں' شہری زندگی معطل نہیں ہوتی ، سیوریج سسٹم بحال رہتا ہے ، برساتی نالے صاف اور رواں رہتے ہیں، ٹریفک چلتی رہتی ہے ، دفاتر میں کام جاری رہتا ہے ، مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں، سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں کا روپ دھارتی ہیں نہ ہی کھمبوں میں کرنٹ آتا ہے' یوں جانی نقصان بھی نہیں ہوتا۔
ترقی یافتہ ملکوں کی حکمران اشرافیہ، سیاسی قیادت اور سرکاری مشینری نے جزا وسزا کا ایک متوازن اور غیرمبہم نظام قائم کیا، شہری زندگی اور اس کی ضروریات کو سمجھا ، تحقیق کرائی اور پھر انفرااسٹرکچر بنایا' اس سسٹم کو چلانے کے لیے محکمے تشکیل دیے گئے۔
تربیت یافتہ افسر و اہلکار بھرتی کیے ، اس کے بعد سارا سسٹم آٹومیٹک ہو گیا' آج امریکا، جرمنی، برطانیہ اور جاپان میں جتنی مرضی بارشیں ہو جائیں' ادارے خود بخود حرکت میں آ جاتے ہیں' وزیراعظم کو نوٹس نہیں لینا پڑتا' نہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ اور سرکاری افسروںکے ساتھ بارش کے پانی میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
میونسپلٹی کے ادارے سارا سال ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں' سرکاری افسران اور اہلکار متحرک رہتے ہیں، بلدیاتی نمایندے روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کا فرض ادا کرتے ہیں کیونکہ انھیں بتایا گیا ہے کہ آپ کو تنخواہیں اور دیگر مراعات اسی کام کے عوض ملتی ہیں، کام چوری، سستی کاہلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یورپ اور امریکا میں رہنے والے پاکستانی وہاں کے سسٹم کی کامیابی کے گواہ ہیں۔
پاکستان نے بھی کئی شعبوں میں بے مثال ترقی کی ہے' پاکستان کے پالیسی سازوں نے دن رات محنت کر کے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے' یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جو آسان کام ہیں' وہ نہیں کیے بلکہ انھیں پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔
اب مسائل حل کرناپہاڑ سے دودھ کی نہر نکالنے کے مترادف ہے' مجھے یہ ساری باتیں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے کرنی پڑی ہیں حالانکہ آپ بھی سمجھ دار ہیں اور ان حقائق کا پورا ادراک رکھتے ہیں، لیکن کیا کریں، کوئی بات تو کرنی ہے، ان بارشوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ پاکستان میں انتظامی ڈھانچہ ناکارہ ہو چکا ہے' لاہور میں پری مون سون کی پہلی بارش نے سارے شہر کو جل تھل کر دیا' ترقی کی علامت قرار دیے جانے والے انڈر پاس پانی سے بھر گئے' بجلی کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔
سڑکیں پانی میں ڈوب گئیں' شہری ادارے اور انتظامی مشینری بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بن گئے جب کہ لاہور کے شہری پانی میں ڈوبی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو دھکے لگاتے نظر آئے۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ' چند وزراء اور سرکاری افسروں کے ہمراہ لاہور کے معروف لکشمی چوک میں بارش کے پانی میں کھڑے رہے' میڈیا نے یہ منظر پنجاب ہی نہیں پورے پاکستان کے شہریوں کو دکھایا ہے۔
اب اسے کارکردگی کا نام دیا جائے یا بے بسی کا افسانہ' اس کا فیصلہ آپ خود ہی کر لیں۔مجھے تو یہ منظر دیکھ کر بے اختیار وزیراعظم میاں شہباز شریف یاد آ گئے جو کبھی ''خادم اعلیٰ'' ہوا کرتے تھے' انھوں نے ہی بارشی پانی میں کھڑے ہو کر تصویر کشی کی روایت ڈالی' وہ جب بھی وزیراعلیٰ بنے' مون سون کی بارش میں لانگ بوٹ پہن کر لکشمی چوک ضرور پہنچتے تھے' ان کے ہمراہ چند وزراء اور افسران چارو ناچار بارش کے پانی میںبھیگتے نظر آتے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کی قائم کردہ روایت آج بھی جاری و ساری ہے۔
عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ بنے تو وہ بھی مون سون کی بارش میں لگژری سرکاری کار میں بیٹھ کر بارش انجوائے کرتے رہے ہیں' سندھ' کے پی اور بلوچستان میں ایسے منظر نظر نہیں آتے' البتہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گہرے پانی میں پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ گزشتہ سیلاب میں خاصے متحرک نظر آئے ہیں اور اب بھی خاصا کام کررہے ہیں۔
لاہور میں نگران حکومت کو بارش کے پانی میں کھڑا دیکھ کر مجھے ایک پاکستانی فلم کا گیت یاد آ گیا، جسے نورجہاں نے گایا ہے۔دل کرتا ہے، آپ کو سناؤں۔
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
میں لڑکپن سے لکشمی چوک اور نسبت روڈ کو بارش کے پانی میں ڈوبتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ ہر سال بارش ہوتی ہے' لکشمی چوک'نسبت روڈ اور دل محمد روڈ دریا کا منظر پیش کرتے ہیں' یہ بڑی تاریخی جگہ ہے' لکشمی چوک کبھی لاہور کی فلم انڈسٹری کا مرکز ہوا کرتا تھا' بڑے بڑے فلمی اداروں کے دفاتر یہاں قائم تھے۔
اکا دکا شاید اب بھی ہوں، فلمی پوسٹرز کی تیاری بھی یہیں ہوتی تھی' اس سے ملحق ایبٹ روڈ اور میکلوڈ روڈ پر سینما ہالز قطار اندر قطار کھڑے ہوتے تھے۔ یہاں اب بھی چند سنیما ہیں لیکن ماضی کے مزار بنے ہوئے ہیں۔ لاہور شہر کے بہترین پان اور انواع اقسام کے کھانے اسی چوک میں ملا کرتے تھے۔ لکشمی چوک کیا تھا' ایک شبستان تھا۔
اس تاریخ چوک کے عین اوپر دیال سنگھ کالج' دیال سنگھ ہوسٹل اور دیال سنگھ لائبریری قائم ہے۔ لیکن یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب یہاں مون سون سیزن میں شہر ڈوبا نہیں کرتا تھا بلکہ ساون کے گیت گائے جاتے تھے' استاد برکت علی خان کا گایا ہوا اردو ماہیا' لاہور میں ساون رت کی یاد دلاتا ہے۔ ساون کے حوالے سے یہ مصرعہ کیا خوب ہے
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا رہ کر جینا بھی کیا جینا
سوری ! میں آپ کو کہاں سے کہاں لے گیا' ماضی تو ماضی ہوتا ہے' ماضی میں رہنا دانشمندی نہیں ہوتی ، اصل چیز تو ہمارا حال ہے' ماضی میں لاہور چاہے سونے کا ہی کیوں نہ رہا ہو' اس کا ہمارے حال کو کیا فائدہ۔ ماضی کے شاندار لاہور کے باسی اس شہر کے حسن اور رعنائیوں کو انجوائے کرکے تاریخ کا رزق بن چکے ہیں۔
ہمارے لیے تو آج کا پاکستان اور لاہور ہی حقیقت ہے، یقین مانیں، یہ حقیقت زہر کی طرح تلخ اور کڑوی ہے۔ آج کا سچ تو یہی ہے کہ پاکستان کی طرح اس کے شہر اور دیہات بھی دکھوں اور المیوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
مہنگائی، دہشت گردی کو چھوڑیں، ہمارے لیے بارش اور سیلاب بھی دہشت گردی سے کم نہیں ہیں۔ابھی گزرے برس کی بارشوں اور سیلاب کے زخم نہیں بھرے تھے کہ مون سون سیزن پھر آگیاہے۔ لیکن آفرین ہے' حکمرانوں اور اشرافیہ پر ' انھوں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ''اصولوں'' پر کبھی سودے بازی نہیں کریں گے اور ان کا اصول ہے کہ ہمارا کوئی اصول نہیں ہے۔
دہائیوں پہلے بھی لکشمی چوک بارش کے پانی میں ڈوب جاتا تھا اور آج بھی منظر تبدیل نہیں ہوا ہے' پہلے بھی وزیراعلیٰ اپنے چند وزراء اور چند سرکاری افسروں کے ساتھ بارش کے پانی میں کھڑے ہو کرفوٹو سیشن کراتا تھا، یہ روایت آج بھی قائم ہے اور انشاء اللہ اگلے برس بھی قائم ہی رہے گی۔ آخر میں میڈیم نورجہاں کے اوپر لکھے ہوئے گیت کا ایک بند پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
مجبور کررہی ہے، پھر گردش زمانہ
ہم چھیڑ دیں' وہیں سے گذرا ہوا فسانہ
لیکن کوئی بتا دے، بھولے ہیں ہم کہاں سے