کراچی کی سیاست میں ہلچل
اگر سات سال پابندی پر کوئی پٹیشن دائر نہیں ہوئی تو اب کیوں کی جا رہی ہے؟
کراچی میں ایم کیو ایم لندن نے ایک دم اپنی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ کئی سال سے غیر فعال یہ گروپ یک دم فعال اور متحرک ہوا حالانکہ پہلے کوئی لندن گروپ کا نام لینے کو تیار نہیں تھا۔
سات سال سے ایم کیو ایم لندن کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے لیکن سات سال میں تو کسی نے کبھی ریلی نہیں نکالی۔ اب کیوں اور کیسے ؟یہ سوال اہم ہے' اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح سات سال بعد بانی ایم کیو ایم کی میڈیا کوریج پر پابندی ختم کرنے کے لیے بھی سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ سات سال بعد یہ پٹیشن کیوں دائر کی گئی؟اگر سات سال پابندی پر کوئی پٹیشن دائر نہیں ہوئی تو اب کیوں کی جا رہی ہے؟
کیا بانی ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست میں واپس اپنا کوئی کردار دیکھ رہے ہیں؟ کیا اسٹبلشمنٹ سے کوئی بات طے ہے؟ کیا انھیں کوئی اشارہ مل گیا ہے کہ نرمی ہو سکتی ہے؟ کیا 22 اگست کو معاف کرنے کی تیاری ہو گئی ہے۔ یہ سب سوال پٹیشن کے ساتھ ہر ذہن میں آتے ہیں۔
لندن گروپ سات سال سے مسلسل ہر الیکشن کا بائیکاٹ کرتا نظرآ رہا ہے۔یہ بائیکاٹ کافی کامیاب بھی نظر آتا ہے کیونکہ ووٹنگ کی شرح کم نظر آتی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ بائیکاٹ کی حکمت عملی نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو تو کوئی خاص فائدہ دیا ہے کہ نہیں لیکن ووٹ کو بڑی حد تک بیلٹ سے دور کر دیا ہے۔
اسی وجہ سے 2018میں تحریک انصاف کی جیت ممکن ہوئی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم لندن کے بائیکاٹ کا کہیں نہ کہیں اسٹبلشمنٹ کو فائدہ ہی تھا۔ اس لیے ان کے بائیکاٹ کو ناکام بنانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اس کی کسی نہ کسی طرح حوصلہ افزائی ہی کی گئی۔ یہ درست ہے کہ اس بائیکاٹ کا ایم کیو ایم پاکستان کو نقصان ہوتا ہے۔ان کا ووٹر کنفیوژ ہو جاتا ہے۔ لوگ تقسیم ہو جاتے ہیں۔ کچھ ادھر ہو جاتے ہیں کچھ ادھر ہو جاتے ہیں۔
اس لیے کراچی سے ایم کیو ایم کو آؤٹ کرنے کی کوشش میں مصروف قوتوں کے لیے لندن گروپ سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔
جب ایم کیو ایم لندن کے پاس خود الیکشن لڑنے کی کوئی آپشن نہیں ہے۔ تو وہ اپنے ووٹر کو بیلٹ سے دورکر کے دراصل کراچی کے ووٹر کی آواز بند کر رہا ہے۔ تا کہ شہری سندھ کی آواز پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکے۔ ہم کراچی شہر کی قیادت کی کارکردگی پر بات کر سکتے ہیں لیکن انھیں پارلیمنٹ سے دور رکھنا کوئی اچھی حکمت عملی قرار نہیں دی جا سکتی۔
آج لندن گروپ کے دوبارہ فعال ہونے کا کس کو فائدہ ہوگا۔ یہ سوال اہم ہے۔ جب ہم اس سوال کا جواب جان لیں گے تو ہمیں سمجھ آسکے گی ۔
لندن گروپ کے بائیکاٹ کاانھیں تو کوئی فائدہ نہیں' اس بائیکاٹ سے ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان صلح کا کوئی امکان نہیں بلکہ یہ بائیکاٹ تو اسٹبلشمنٹ کے مسائل آسان کر دیتا ہے، اگر ایم کیو ایم لندن 2018میں بائیکاٹ نہ کرتی تو کراچی میں تحریک انصاف کی جیت ممکن ہی نہیں تھی۔ اس لیے اگر دیکھا جائے تو بائیکاٹ ایک سہولت کاری ہے۔
آج بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں لندن گروپ کو دوبارہ فعال کرنا 2023کے انتخابات کا نیا اسکرپٹ لکھنا ہے۔ 2018میں بائیکاٹ کا فائدہ تحریک انصاف کوہوا تھا۔ 2023 میں بائیکاٹ کا فائدہ کیا پیپلزپارٹی کو ہوگا۔
کیا لندن گروپ کی ریلیوں اور پٹیشن کے پیچھے الیکشن کی گریٹ گیم ہے۔ کیا جس طرح 2018میں تحریک انصاف نے کراچی کی سیٹیں جیتی تھیں اور اب 2023میں پیپلزپارٹی فوائد سمیٹنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ گزشتہ انتخاب میں بھی کراچی کا نقصان ہوا تھا۔ اس بار بھی کراچی کے شہری ووٹ کا ہی نقصان ہوگا۔ گزشتہ انتخاب میں بھی ایم کیو ایم پاکستان کا نقصان ہوا تھا' اب بھی ایم کیو ایم پاکستان کا نقصان ہو گا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق لندن گروپ کو ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت الیکشن کے قریب متحرک کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی پہلے ہی کراچی کا میئر بنا چکی ہے۔
اس لیے جب انتخابات ہوں گے تو کراچی میں ان کا میئر ہوگا۔ وہ کراچی میں پیپلزپارٹی کے لیے کام کر رہا ہوگا۔ اس لیے آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کی سیاسی گیم یہی ہو سکتی کہ پیپلز پارٹی کراچی سے قومی اسمبلی کی کم از کم دس سے بارہ سیٹیں جیت لے۔یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کراچی سے بارہ سیٹیں جیتنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔
یہ صرف بارہ قومی اسمبلی کی سیٹیں نہیں ہوں گی بلکہ اس کے ساتھ سندھ اسمبلی میں بیس مزید سیٹیں بھی آجائیں گی۔ جس کی بنا پر پیپلزپارٹی کا سندھ پر سیاسی قبضہ مزید مضبوط ہو جائے گا۔ اس طرح سینیٹ میں سیٹیں بھی بڑھ جائیں گے۔
صدر کے انتخاب میں ووٹ بھی بڑھ جائیں گے۔پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی شامل ہو جائے گی۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے لیے کراچی کی سیٹیں انتہائی اہم بن چکی ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی آیندہ انتخابات میںبلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے اسے قومی اسمبلی میں اپنی سیٹوں میں اضافہ کرنا ہے۔ پنجاب سے وہ کامیابی نہیں ملی ہے جس کی توقع تھی۔جنوبی پنجاب میں کچھ سیٹیں مل سکتی ہیں۔ اس لیے اب کراچی کو ٹارگٹ کو کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں کراچی میں میئر بنا لیا گیا ہے۔
اب قومی اور صوبائی سیٹیں جیتنی ہیں۔ تحریک انصاف سیاسی قوت کھو گئی ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کے پاس امیدوار ہی نہیں ہیں۔
ان کے لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے لیے تحریک انصاف کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ سوال ایم کیو ایم پاکستان کا ہے۔ پیپلز پارٹی کے تھنک ٹینک جانتے ہیں جب تک ایم کیو ایم کے ووٹ کو تقسیم نہیں کیا جائے گا وہ جیت نہیں سکتے۔ تقسیم کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ووٹر بیلٹ تک نہ آئے۔
اسی لیے لگتا یہی ہے پہلے مرحلے میں لندن گروپ کو ایک پلاننگ کے تحت کراچی میں زندہ کیا جارہا ہے۔نتیجہ سب کو معلوم ہے کہ آخر میں بانی ایم کیو ایم الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیں گے لہٰذا نقصان کس کا ہو گا اور فائدہ کسے پہنچے گا 'یہ وہ سوال ہے جو حل ہونا باقی ہے۔