دہشت گردی کی نئی لہر اور افغانستان
اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنی علاقائی پالیسی اور باَلخصوص افغان پالیسی کو نئے سرے سے دیکھیں
پاکستان کی خودمختاری ، سلامتی اور ترقی کا ایک بنیادی نقطہ علاقائی سیاست کا استحکام، دوطرفہ بہتر تعلقات اور بالخصوص افغانستان کے داخلی سطح کے استحکام سے جڑا ہوا ہے ۔ افغان بحران کا حل اور پرامن افغانستان ہی پاکستان کے داخلی استحکام کی ضمانت بھی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری علاقائی، عالمی اور داخلی پالیسی میں افغان بحران کا پرامن حل بنیادی نقطہ رہا ہے ۔ایک عمومی سوچ یہ تھی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد دو معاملات پر بڑی پیش رفت ہوگی۔ اول پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو بھی ٹکراؤ، تضادات ، عدم اعتماد سمیت دیگر مسائل تھے ان میں مثبت پیش رفت دیکھنے کو ملے گی ۔
دوئم، پاکستان اور افغانستان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے طور پر استعمال نہیں ہونگی اور نہ ہی دہشت گردوں کو یہاں محفوظ ٹھکانہ یا ان کی سرپرستی کی جائے گی ۔ یہ نقطہ بھی اہمیت رکھتا تھا کہ دونوں اطراف کے دہشت گردوں کا خاتمہ اور ان کی ہر قسم کی سہولت کاری کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
حالیہ دنوں میں یا کچھ عرصہ سے پاکستان کی ریاست اور افواج سمیت حکومت کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا باہمی تعلق اور ٹی ٹی پی کو افغانستان میں دستیاب محفوظ پناہ گاہیں اور اس کے نتیجہ میں دہشت گردی کی کاروائیوں پر شدید تحفظات ہیں ۔
حالانکہ پاکستان کی جانب سے دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے میں اس کا کلیدی کردار تھا۔ آج بھی طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر نہ تو تسلیم کیا گیا اور نہ ہی ان کی وہ بڑی پزیرائی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اپنی داخلی بقا اور علاقائی استحکام کے لیے افغانستان کے مفادات کو ہمیشہ اہمیت دیتے رہے ہیں اور ہماری کوشش رہی ہے کہ افغانستان کے استحکام کو یقینی بنا کر ہم اپنے داخلی استحکام کو بھی مضبوط بنائیں ۔
لیکن طالبان حکومت کا رویہ اس وقت مناسب نہیں اور وہ بھی سابقہ افغان حکمرانوں کی طرح اپنے داخلی مسائل کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر الزام تراشیوں پر مبنی فکر کو بنیاد بنا کر ہمارے تحفظات کو نظرانداز کررہی ہے ۔
کیونکہ دوحہ مذاکرات کے بنیادی نقطہ سے انحراف کرکے افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین کو ہمارے خلاف دہشت گردی کے استعمال میں یا تو خاموش ہے یا یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔کیونکہ اس وقت جو کچھ پاک افغانستان میں ہورہا ہے وہ دوحہ مذاکرات کی ناکامی اور خلاف وزری سے جڑا ہوا ہے ۔
یہ نقطہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ افغانستان میں جو بھی حکومت آئی اس کے نتیجہ میں پاکستان کا بحران کم نہیں بلکہ زیادہ ہوا ہے اور ہمیں پہلے سے بھی زیادہ سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان کیونکر بداعتمادی پیدا ہورہی ہے اور کیا وجہ ہے کہ افغان حکومت ہمیں نظرانداز کرکے وہی کچھ کرنے کی کوشش کررہی ہے جو پاکستان مخالف ایجنڈا ہے تو یہ ہمارے لیے سوچنے کا پہلو ہے اور اس پر زیادہ سنجیدگی سے ہمیں مستقبل کے امکانات اور نئے سرے سے جائزہ لے کر نئی حکمت عملی کو ترتیب دینا ہوگا ۔
کیونکہ یہ بھی ہمارے یہاں سوچ پیدا ہورہی ہے کہ افغانستان کے ساتھ تواتر کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش، تعاون اور حد سے بڑھ کر ان کی عملی حمایت کے باوجود ہمیں افغانستان سے دہشت گردی ، پاک فوج کی چوکیوں پر حملے ،افغانستان کی سرزمین پر پاکستان مخالف سازشیں کرنا ، نفرت انگیز اور الزام تراشیوں پر مبنی بیانیہ، افغان حکومت کا بھارت کے ایما پر پاکستان مخالف بیان دینا جیسے انعامات مل رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی راہنما مفتی نور ولی محسود باقاعدگی سے پاکستان مخالف بیانات اور بھارتی ایما پر افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود یہ تشویش کا پہلو ہے کہ افغانستان میں عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے بقول افغانستان میں ٹی ٹی پی کا کوئی وجود نہیں اور پاکستان اپنی داخلی ناکامی کا ملبہ ہم پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔
افغان حکومت کے ترجمان کا یہ بیان کہ ٹی ٹی پی کا کوئی وجود افغانستان کی حد میں نہیں مضحکہ خیز لگتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ وہ معاملات کے حل میں کس حد تک سنجیدہ ہیں ۔کیونکہ یہ خبریں بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کے کئی اہم راہنما آزادانہ بنیادوں پر کابل میں نظر آتے ہیں اور ان کو ایک سطح پر حکومتی تحفظ بھی حاصل ہے ۔
یہ اہم اطلاعات بھی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے تربیتی کیمپ افغان سرزمین میں بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرتے ، اجتماعات کا اہتمام اور دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں ان کے افغان حکومت سے روابط بھی موجود ہیں ۔
اس لیے پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کی بھرپور حمایت اور تعاون کے نتیجے میں جو کچھ ہمیں عملی طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے وہ پاکستان کی افغان پالیسی کے تناظر میں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے ۔
پاکستان میں اس نقطہ پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ بھارت اور افغان حکومت کے درمیان جو بھی تعلقات ہیں وہ ان کا حق ہے مگر اگر یہ ہی تعلقات پاکستان مخالفت کی بنیاد پر استعمال ہورہے ہیں تو یہ ہماری فکر کو نمایاں کرتا ہے ۔کیونکہ ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان دونوں کا پاکستان مخالف ایجنڈا ہمارے مفاد میں نہیں ہوگا۔
یہ حالات پاکستان کی افغانستان کے بارے میں پہلے سے موجود پالیسی پر بھی نظر ثانی کی دعوت دیتا ہے کہ ہمیں اپنی حالیہ پالیسی میں افغانستان کے تناظر میں بہت کچھ تبدیل کرنا ہوگا۔اگر افغان طالبان حکومت کا دور ہمیں حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی سے بھی زیادہ برا ملنا ہے تو پھر ہمیں بھی نئے امکانات اور نئی پالیسی پر ازسرنو غور کرنا ہوگا کہ ہم کس قیمت پر خود اپنے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں ایک میڈیا کانفرنس میں کابل میں تھا تو مجھے وہاں جاکر اندازہ ہوا کہ کیسے افغانستان کی نئی نسل میں تعلیمی نظام ، نصاب اور میڈیا کی مدد سے پاکستان مخالف ایجنڈے کو فوقیت دی جاتی ہے اور اسی نقطہ کو بار بار اجاگر کیا جاتا ہے کہ افغانستان کے حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے ۔
لیکن جو کچھ افغانستان کے داخلی بحران کے نتیجے میں پاکستان کو برداشت کرنا پڑا رہا ہے اس پر کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی ۔ان حالات نے ہماری اس سوچ کو بھی غلط ثابت کیا کہ اگر طالبان کی حکومت ہوگی تو ہمارے لیے حالات مختلف اور بہتر ہونگے ، بلکہ بعض معاملات میں حالات پہلے سے بھی بدتر ہیں ۔بلکہ بعض افغان مسائل پر سیاسی پنڈت تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا باہمی گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کی بات ہماری طرف سے کی جاتی ہے تو افغان حکومت مذاکرات کے راستے کو اختیار کرنے کی طرف لاتی ہے تاکہ ان کو کسی نہ کسی شکل میں تحفظ دیا جاسکے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنی علاقائی پالیسی اور باَلخصوص افغان پالیسی کو نئے سرے سے دیکھیں اور اس پر اہم فریقین اور اہم سیاسی و عسکری فورمز پر بات چیت ہو اور پہلے سے موجود پالیسی کے مقابلے میں آگے بڑھنے کے نئے راستے تلاش کریں ، یہ ہی ہمارے مفاد میں ہوگا ۔