پنجاب میں طویل لوڈ شیڈنگ سے چھوٹے دکاندار پریشان
دکانداروں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ٹھنڈی رکھی جانیوالی اشیا کیلیے جنریٹرخرید اورروزانہ کئی گھنٹے تک چلا سکیں
پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہونے والی کئی کئی گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ سے جہاں عام شہریوں کو مسائل اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں چھوٹے دکانداروں اور اسٹورمالکان کے لیے مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں جن کے پاس ریفریجریٹر چلانے کے لیے جنریٹرنہیں ہیں۔
محمد سفیان لاہورکے علاقہ باغبانپورہ کے رہائشی ہیں، انہوں نے اپنے علاقے ہی میں ایک جنرل اسٹوربنا رکھا ہے تاہم وہ ان دنوں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے خاصے پریشان ہیں۔
محمد سفیان کا کہنا ہے کہ غیراعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے، ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ بجلی کے حصول کےلیے جنریٹرخرید سکیں۔ لوڈشیڈنگ کے دوران روشنی کے لیے توانہوں نے یوپی ایس لگا رکھا ہے لیکن یوپی ایس پر فریج نہیں چلایا جاسکتا،اس وجہ سے ان کی فریج میں رکھنے والی اشیا خراب ہوجاتی ہیں۔
محمد سفیان کی طرح ان جیسے دیگرکئی دکانداروں اور جنرل اسٹورمالکان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گلبرگ لاہور میں ملک شاپ (دودھ دہی کی دکان) کے مالک میاں اخلاق احمد نے بتایا کہ لوڈشیڈنگ کے دوران دودھ اوردہی کوخراب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں برف استعمال کرنا پڑتی ہے۔
میاں اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ ایک آدھ گھنٹہ بجلی بندرہے تو گزارہ ہوجاتا ہے لیکن جب کئی کئی گھنٹے بجلی نہیں آتی توپھر دودھ اوردہی کے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ فریج کے اندربرف رکھ دیتے ہیں تاکہ ٹھنڈک برقراررہے۔
ایک فریج،ایک پنکھا اورچند لائٹیں جلانے کے لیے پانچ کلوواٹ کے جنریٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں پانچ کلوواٹ کے جنریٹر کی قیمت دولاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے اور اگرسولرپینل کی بات کی جائے تو اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
ایک گھنٹہ جنریٹرچلانے پر دو لیٹر پٹرول استعمال ہوتا ہے۔ جنرل اسٹورمالکان کے مطابق ایک گھنٹے میں چارسے پانچ سو روپے کا پٹرول خرچ ہوگا لیکن فریج آئٹمز پرانہیں اتنی آمدن نہیں ہوتی ہے۔
لاہورکےایک معروف سپر اسٹورکی انتظامیہ نے بتایا کہ لوڈ شیڈنگ کے دوران ان کے یومیہ اخراجات تین سے چارلاکھ روپے بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سپراسٹورچونکہ چوبیس گھنٹے کھلارہتا ہے اور یہاں درجنوں ریفریجریٹر اورفریج ہیں، میڈیسن سیکشن ، گوشت اورسبزیوں کے سیکشن میں بھی ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے۔ فریج اورریفریجریٹرزکے علاوہ چوبیس گھنٹے ایئرکنڈیشنرچلتے ہیں اس لیے بجلی کی مد میں اخراجات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ملک سیلرایسوسی ایشن (دودھ فروش) لاہور کے صدر چوہدری سہیل نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لوڈشیڈنگ کا متبادل جنریٹرہے لیکن یہ طریقہ بہت مہنگاپڑتا ہے۔
بجلی کا ایک یونٹ 40 روپے جبکہ جنریٹرسے بجلی کا ایک یونٹ 85 سے 90 روپے میں پڑتا ہے یعنی دودھ، مکھن اوردیگرمصنوعات کوصرف ٹھنڈا رکھنے کا خرچہ دوگنا بڑھ جاتا ہے ،اسی طرح دیگر اخراجات بڑھ جاتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک من دودھ کی قیمت میں ڈیڑھ سو سے 200 روپے تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اکثرچھوٹے دکاندار اورجنرل اسٹور فریج میں اسٹورکی جانے والی اشیا رکھنا بند کردیتے ہیں جن میں مختلف قسم کے مشروبات ،آئس کریم قابل ذکر ہیں جبکہ چھوٹے قصبوں اوردیہات میں مشروبات ٹھنڈے رکھنے کے لیے جستی پیٹیاں،پلاسٹک کے ڈرم استعمال کیے جاتے ہیں۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ غیراعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ سے ان کے کاروباربری طرح متاثرہوتے ہیں لہذا حکومت کو اس پہلوکی طرف توجہ دینےکی ضرورت ہے۔