آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
اعلیٰ حکام، چند دنوں میں ملزمان کو گرفتار اورکیفر کردار تک پہنچانے کا حکم صادرکرتے ہیں
یونان کشتی حادثے کے شکار بدنصیب لوگوں کی المناک اور دلخراش داستانیں سامنے آچکی ہیں، ایسے سانحات پر سرکاری اور عوامی سطح پر معمول کا جو رد عمل آیا کرتا ہے، وہ بھی سامنے آ چکا ہے۔
ہمیشہ کی طرح یہ سانحہ بھی ماضی میں ہونے والے المیوں کی طرح فراموش کر دیا جائے گا۔ 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوا، اس سے گہرا صدمہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ ملک ہی ٹوٹ کر دولخت ہوگیا اور آدھی سے زیادہ آبادی اس سے الگ ہو گئی۔
ملک میں کتنے بڑے سیلاب اور زلزلے بارہا آئے جن میں لاکھوں لوگ ہلاک اور بے گھر ہوئے، دہشت گردی کی بھیانک لہر آئی اور ہزاروں بے گناہوں کی زندگیاں نگل گئی۔ اے پی ایس کے معصوم بچوں کی روحیں آج بھی انصاف کی منتظر ہیں۔ عورتوں اور بچیوں کی بے حرمتی، بے رحمانہ قتل اور کاروکاری کے روح فرسا واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، جن پر اہم سرکاری، سماجی اور مذہبی شخصیات کے مذمتی بیانات سے اخبارات کے صفحات بھر جاتے ہیں۔
اعلیٰ حکام، چند دنوں میں ملزمان کو گرفتار اورکیفر کردار تک پہنچانے کا حکم صادرکرتے ہیں، لیکن کچھ دنوں میں سارا جوش وعزم کسی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور ہم سب دوبارہ آنے والے سانحوں کا انتظار کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ ہمارا،اس قدر ہنگامہ اور ہیجان خیز ردعمل فوری طور پرکیوں ختم ہو جاتا ہے، ہم ایسے سانحات کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں کرتے اور اس مقصد کے لیے حکومتوں پرکیوں دباؤ برقرار نہیں رکھتے؟ یہ وہ اہم سوال ہیں جن پر سنجیدہ بحث کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
اس رویے کی ایک سادہ وجہ تو یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک کے لوگ اپنے یہاں رونما ہونے والے کسی بھی المناک واقعہ پر عموماً جذباتی رد عمل کا مظاہرہ کیا کرتے ہیں، لہٰذا اس مظہر پر ہمیں کسی سنجیدہ تجزیے کی کیا ضرورت ہے۔
تاہم، غور طلب بات یہ ہے کہ دیگر ممالک کے برعکس ہم لوگ اپنی حکومتوں کا اس بات پر محاسبہ نہیں کرتے کہ وہ ایسے واقعات کو بار بار رونما ہونے سے کیوں نہیں روکتیں جنھیں وہ نسبتاً باآسانی روک سکتی ہیں اور جن قدرتی آفات کو روکنا ان کے بس میں نہیں وہ ان کے متاثرین کی بروقت مدد اور آبادکاری میں ناکام کیوں ہوجاتی ہیں؟
اس تناظر میں یونان کشتی حادثے کے حالیہ واقعے کا تجزیہ مختلف حوالوں سے کیا جا سکتا ہے، یہ کسے نہیں معلوم کہ پاکستان میں غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور بہتر مستقبل کی دم توڑتی امید کی وجہ سے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی بڑی تعداد، قانونی یا غیر قانونی دونوں طرح، ترک وطن کے لیے بے تاب نظر آتی ہے۔
پاکستان کی چوبیس کروڑ کی آبادی میں بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی تعداد نوے لاکھ سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک میں محنت ومشقت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق نچلے متوسط اور غریب طبقے سے ہے۔
اس خطے کے بعد زیادہ تر پاکستانی برطانیہ، یورپ اور شمالی امریکا میں آباد ہیں، ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز، کاروباری و ہنر مند افراد، کارکن اور طالب علم شامل ہیں۔ ترک وطن کرنے والوں کی فطری طور پر پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس عمل کے لیے قانونی راستہ اختیارکیا جائے، تاہم، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیر قانونی راہ اختیار کر کے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
افغان جنگ کے آغاز سے قبل بیرون ملک جانا مشکل نہیں تھا۔ 80 کی دہائی کے بعد سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہونے لگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیل گیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ ہم جن کے لیے یہ جنگ لڑ رہے تھے، انھوں نے بھی پاکستان کو دہشت گردی کا مرکزکہنا شروع کر دیا۔
9/11 کے بعد سے حالات مزید خراب ہوئے اور پوری دنیا میں پاکستانیوں کے لیے ویزا شرائط سخت ہوگئیں اور بیرون ملک سفر بھی پہلے سے کہیں مشکل ہو گیا۔ مذہبی عسکریت پسندی کا دور ختم ہوا اور حالات بہتر ہونے لگے تو کووڈ کی عالمی وبا نے دنیا کو مفلوج کر دیا جس کے باعث پاکستان میں پہلے سے جاری معاشی بحران بھی مزید سنگین ہوگیا۔
لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا جس کے بعد ترک وطن کے رجحان میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ قانونی طور پر چونکہ بیرون ملک جانا آسان نہ تھا لہٰذا انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہوں نے نوجوانوں کو سہانے خواب دکھانے شروع کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روپے کے عوض یورپ پہنچانے کا مکروہ دھندہ اپنے عروج پر جا پہنچا۔ اس معاملے کی تفصیل اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں، لیکن چند باتیں ایسی ہیں جنھیں بیان کرنا بہت ضروری ہے۔
سب سے اہم کام یہ ہے کہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو کم کرنے کی خاطر ہم سب کو اپنا اجتماعی کردار ہر قیمت پر ضرور ادا کرنا ہوگا، یہ کام صرف حکومت کے بس کا نہیں، نجی کاروباری اداروں، ذرایع ابلاغ، اساتذہ، والدین اور بزرگوں کو بھی نوجوانوں میں امید، امنگ اور مثبت سوچ پیدا کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
ہمارے بینک ہر سال اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں،کیا وہ آگے بڑھ کر نوجوانوں کو چھوٹے کاروبار کے لیے آسان شرائط پر بلا سود قرض فراہم نہیں کر سکتے؟اپنے ملک سے جانے کے لیے نوجوان، درندہ صفت انسانی اسمگلروں کو 25 سے 30 لاکھ روپے ادا کرتے ہیں، کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں انھیں کاروبار شروع کرنے کے لیے نو تعمیر شدہ چھوٹی دکانیں کم کرائے پر فراہم نہیں کر سکتیں؟ کیا سرکاری ادارے اور این جی اوز نوجوانوں میں ای کامرس کی مہارتیں (اسکلز) پیدا نہیں کر سکتیں جن کے ذریعے وہ سیکڑوں، ہزاروں ڈالر ماہانہ کما سکتے ہیں؟
اس مقصد کے لیے نہ دفتر نہ کسی دکان کی ضرورت ہے بلکہ صرف ایک سیل فون اور ایسی مہارت درکار ہوتی ہے جو با آسانی فراہم کی جا سکتی ہے، یہ کوئی انوکھا خیال نہیں، اس وقت بھی نہ صرف شہر بلکہ گاؤں دیہات کی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے بڑی کامیابی سے، ای کامرس کے ذریعے معقول آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔
ذرایع ابلاغ بھی ترغیبی اور تعلیمی پرو گرا م کے ذریعے اس عمل کو تیز ترکر سکتا ہے۔ یہ اور ان جیسے بہت سے دیگر اقدامات کے ذریعے ان نا امید نوجوانوں اور غریب انسانوں کو بے رحم انسانی اسمگلروں کے چنگل سے بچایا جا سکتا ہے جو بہتر زندگی کی تلاش میں ان کا شکار بن جاتے ہیں۔
ہمیں ہر سانحے اور المیے پر جذباتی رد عمل دے کر اسے فراموش کرنے کی عادت ترک کرنی اور حکومتوں کی نااہلیوں پر نظر رکھنی ہوگی، ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے نوجوانوں کی زندگی کی کشتیاں یوں ہی ڈوبتی رہیں گی اور ہم بڑی بے بسی سے کنارے پر کھڑے، انھیں ہمیشہ کے لیے بچھڑتے دیکھتے رہیں گے۔