شفاف انتخابات کا مسئلہ دوبارہ موضوع بحث
سابقہ حکومت نے اس نسخہ پر عملدرآمد کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں دفعہ 47(1) شامل کی تھی
انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے الیکٹرانک مشین کے استعمال کا معاملہ پھر موضوعِ بحث ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کو کسی دانا شخص نے یہ نسخہ دیا تھا کہ EVMSOR Voting Technologies کے استعمال سے ملک میں شفاف انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔
سابقہ حکومت نے اس نسخہ پر عملدرآمد کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں دفعہ 47(1) شامل کی تھی۔ اس شق کی بناء پر الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکٹرانک مشین کے استعمال کا پابند ہے مگر الیکشن کمیشن نے پھر حکومت پنجاب پر واضح کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشین استعمال نہیں کی جاسکتی۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انتخابی بدعنوانیوں کے خاتمہ اور پولنگ کے بعد فوری نتائج کے لیے الیکٹرانک مشین کا آلہ سب سے زیادہ کارآمد ہے۔ الیکشن کمیشن اور انتخابی عمل پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے اور انتخابات کی شفافیت کی نگرانی کرنے والے غیر سرکاری تنظیموں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ الیکٹرانک مشین کے استعمال سے انتخابی نتائج زیادہ مشکوک ہوجائیں گے۔
الیکشن کمیشن نے مشینوں کی خریداری پر آنے والی لاگت کے بارے میں جو معلومات فراہم کی تھیں ان کے مطابق یہ کئی ارب روپے کا پروجیکٹ تھا جس کا الیکشن کمیشن فوری طور پر متحمل نہیں ہوسکتا تھا مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علموں کا یہ متفقہ بیانیہ تھا کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ جن میں اکثریت خواتین کی ہے کمپیوٹر کے استعمال سے واقف نہیں ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے ، غربت کی لکیر کے نیچی زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
غربت کا شکار ہونے والے افراد میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں آباد ہیں اور بااثر امیدوار انتخابی مہم کے دوران ان غریبوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بااثر افراد ووٹ خریدنے پر خاصی رقم خرچ کرتے ہیں، اگر الیکٹرانک مشین کا استعمال کیا جائے تو اس مشین کے ذریعہ ووٹ دینے والا شخص ووٹ دینے کے بعد اپنے نشان زدہ ووٹ کی کاپیاں فوری طور پر حاصل کرسکتا ہے۔
اب تک تو امیدوار کے ایجنٹ حلف لے کر پیسے تقسیم کرتے ہیں، اب اگر یہ مشین استعمال ہوتی تو ووٹ کے پرنٹ آؤٹ پر رقم دی جاتی، یوں خفیہ رائے دہی کا اصول کہیں لاپتہ ہوجاتا۔ پولنگ اسٹیشن سے بجلی کے غائب ہونے اور متعلقہ حلقہ کی ووٹر لسٹ فیڈ نا ہونے کے مسائل علیحدہ تھے۔
جرمنی کی اعلیٰ یونیورسٹی سے سافٹ ویئر کی ڈگری حاصل کرنے والے ماہر محمد علی کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر کے سافٹ ویئر کے تحفظ کے لیے مختلف طریقے دستیاب ہیں مگر ان طریقوں کے استعمال کے باوجود کمپیوٹر کے سافٹ ویئر کو اعلیٰ ترین سطح پر ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں مخالف سیاسی جماعتیں مسلسل یہ الزام لگاتی ہیں کہ وزیر اعظم مودی کی حکمراں جماعت کے ماہرین کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں مداخلت کر کے انتخابی نتائج کو تبدیل کرتے ہیں۔ انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہونے والے عوامل دیگر ہیں۔
انتظامی ڈھانچہ میں غیر جمہوری عناصر کی مداخلت اور ان عناصر کی بعض معاملات میں بالادستی سے پورا انتخابی عمل غیر شفاف ہوجاتا ہے۔ یہ عناصر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرکے الیکٹ ایبل کو مخصوص جماعتوں میں شامل کراتے ہیں۔
مخالفین کو مختلف طریقوں سے خوفزدہ کیا جاتا ہے اور انھیں میدان چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب کے بااثر خاندان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، جن میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بردار بھی شامل تھے۔
انتخابی فہرستوں کی شفافیت کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔ پہلے انتخابی فہرستوں میں اپنی پسند کا اندراج کردیا جاتا ہے اور انتخابی فہرستوں سے مخالف امیدواروں کے حامیوں کے نام حذف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح پولنگ اسٹیشنوں کے قیام کا معاملہ بھی اہم ہوتا ہے، اگر ووٹر کی رہائش سے دور پولنگ اسٹیشن قائم ہونگے تو ووٹوں کا تناسب کم ہوگا، آخری وقت میں پولنگ اسکیم تبدیل ہوجاتی ہے۔
بہت سے ووٹر جب طویل لائن میں کھڑے ہو کر پولنگ اسٹیشن میں داخل ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا ووٹ اس اسٹیشن پر نہیں ہے، بااثر امیدوار اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کے تقرر میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ بااثر افراد اپنے حامیوں کو ملازمتیں دلواتے ہیں۔
یہ اساتذہ پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ افسر بنتے ہیں۔ ان کی ہمدردیاں واضح ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 2018 کے انتخابات میں سب سے زیادہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تھا۔ کمیشن نے انتخابی عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے پولنگ اسٹیشن پر کلوز ڈور کیمرے نصب کرائے تھے۔
ان کیمروں کی خریداری پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی تھی مگر پھر ووٹنگ والے دن نامعلوم افراد نے ان کیمروں کو ناکارہ کیا۔ انتخابی نتائج فوری طور پر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کے لیے آر ٹی ایس کا نظام وضع کیا گیا تھا مگر اچانک یہ نظام بیٹھ گیا۔ یہ خبریں شایع ہوئیں کہ آر ٹی ایس کا نظام نادرا کی خرابی کی وجہ سے معطل ہوا تھا۔
نادرا والوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔ ان کا بیانیہ تھا کہ نادرا کے ڈیٹا بیس میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ انگریزی کے سب سے بڑے اخبار میں شایع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پریزائیڈنگ افسروں نے ان افراد کی ہدایت پر (جنھیں نامعلوم افراد کہا جاتا ہے) یہ نظام بند کیا تھا۔ گزشتہ انتخابات میں مخالفین نے یہ الزامات لگائے تھے کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت ان کے کاؤنٹنگ ایجنٹوں کو اسٹیشن سے نکال دیا گیا تھا اور کاؤنٹنگ ایجنٹوں کو نتائج کی مصدقہ نقول فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ نے ان دھاندلی کے الزامات کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ حکومت اور مخالف جماعتوں نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی جس نے انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنی تھی مگر اس کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کا 99 فیصد کام مکمل کر لیا ہے، تحریک انصاف کو چند نکات پر اختلاف ہے۔ وزیر قانون کو امید ہے کہ ان نکات پر بھی اتفاق ہوجائے گا۔
ایک افسوس ناک خبر یہ ہے کہ اپریل میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج حکومت اب تک جاری نہیں کر پائی ہے۔ اس بناء پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگی۔ یہ فیصلہ نہ صرف موجودہ حکومت کی ناکامی کا اعلان کرتا ہے بلکہ اس فیصلہ سے سندھ کے شہری علاقے براہِ راست متاثر ہوںگے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔
حکومت نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے درمیانی مدت کے انتخابات کی مخالفت بھی اس لیے کی تھی کہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق پورے ملک میں نئی حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں۔
ایک اور بحث میڈیا پر چل رہی ہے کہ انتخابات اکتوبر میں ہوںگے یا نومبر میں اور عبوری حکومت کی مدت کیا ہوگی۔ ان تمام معاملات پر اب حکومت کا واضح مؤقف سامنے آنا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ایک چارٹر پر متفق ہوجائیں۔ شفاف انتخابات سے جمہوری ادارے مستحکم ہوتے ہیں۔