ایک قومی دن کتاب کے حساب میں
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک نیا نیا چراغ روشن ہوا ہے
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک نیا نیا چراغ روشن ہوا ہے جس کا نام ہے لٹریچر فیسٹیول۔ جتنی تند و تیز تشدد کی آندھی ہے اسی تناسب سے اس چراغ کی لو اونچی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ابھی ایک ایسا فیسٹیول لاہور میں ہوا تھا۔ اب اسلام آباد سے بلاوا آیا کہ او یو پی نے کراچی میں لٹریچر فیسٹیول کی صورت جو چراغ روشن کیا تھا وہی چراغ اب اسلام آباد میں جھلملائے گا۔
ابھی ہم اس فیسٹیول جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اسلام آباد ہی سے ایک دوسرے فیسٹیول کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ اسے لٹریچر فیسٹیول مت جانئے۔ ہے اسی قبیل کا چراغ۔ اس کا نام ہے نیشنل بک ڈے۔ قومی یوم کتاب۔ یہ اپنے رنگ کا ایک جشن ہے جس کی داغ بیل نیشنل بک فائونڈیشن نے ڈالی ہے۔
اس جشن میں ہم نے پچھلے سال بھی شرکت کی تھی۔ اس وقت اس ادارے کے سربراہ تھے مظہر الاسلام۔ اب ہیں پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید۔ ادارہ تو یہ پرانا چلا آ رہا ہے مگر قومی یوم کتاب اس کی نئی ایجاد ہے اور اس دھوم دھام سے وہ منایا جاتا ہے جیسے جشن منایا جا رہا ہو اس سے لگتا ہے کہ نیشنل بک فائونڈیشن کوئی نیا ادارہ ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے یہ ادارہ موجود تو چلا آ رہا تھا لیکن یہ سویا سویا ادارہ تھا۔ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے والا مضمون تھا۔
پچھلے ڈیڑھ برسوں میں جب مظہرالاسلام اس کے مینجنگ ڈائریکٹر بنے تو ان کے اثر میں اس نے پھریری لی اور یوم کتاب کے نام سے ایک کتابی جشن کا ظہور ہوا مگر جب پی پی کی حکومت سبکدوش ہوئی تو اس کے ساتھ ہی مظہر الاسلام نے بھی اس ادارے کو الوداع کہا مگر اس ادارے کی خوش قسمتی کہ اسے جلد ہی ایک نیا سربراہ میسر آ گیا۔ ورنہ یوں دیکھئے کہ اس قبیل کے جو دوسرے ادارے ہیں یعنی علمی ادبی و نیز کلچرل ادارے ان کی پھوٹی تقدیر کہ اس کا جو بھی ڈائریکٹر تھا یا چیئرمین وہ گیا تو دوسرا میسر نہیں آیا۔ اب یہ ادارے اپنی پھوٹی تقدیر کو رو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت جو ان اداروں کی مائی باپ ہے اس نے جیسے ان اداروں کو عاق کر دیا ہو۔ مڑ کر ہی نہیں دیکھ رہی کہ یہ ادارے بغیر کسی سربراہ کے کیسے چل رہے ہیں اور چل بھی رہے ہیں یا بیٹھتے جا رہے ہیں۔
تو ان کلچرل ادبی علمی اداروں میں جو کسی بھلے وقت میں قائم ہوئے تھے یہ واحد ادارہ ہے کہ متحرک ہے اور بہت شان سے متحرک ہے۔ انعام الحق جاوید کو ہم پروفیسر سے بڑھ کر شاعر کے طور پر جانتے ہیں اور شاعر کی شاعری تو خوب چلتی ہے اور داد بٹورتی ہے مگر اس کے زیر انتظام کوئی ادارہ ہو تو اس کا چلنا اور چلتے رہنا کوئی لازم نہیں ہے مگر انعام الحق جاوید تو کمال کے آدمی نکلے۔ ابھی انھیں اس ادارے میں آئے ہوئے کتنے دن ہوئے ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ اتنے تھوڑے عرصے میں اتنے بڑے جشن کا اہتمام کیسے کر لیا۔ ہم نے جشن کی بہار دیکھی۔ حیران ہوئے اور خوش بھی ہوئے کہ ڈاکٹر جاوید نے ادارے کو خوش اسلوبی سے سنبھالا ہے۔ کتاب کے نام پر جس جشن کی داغ بیل پڑی تھی اسے پھیکا نہیں پڑنے دیا بلکہ اس میں اپنی جدت طبع سے کچھ اضافے ضرور کیے ہیں۔
کیا خوب اور خوشگوار منظر تھا۔ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کی عالیشان عمارت۔ وسیع و عریض ہال۔ اسی حساب سے وسیع و عریض لابی۔ قطار اندر قطار مختلف ناشروں اور کتاب فروشوں کے اسٹال۔ بچوں بڑوں کا ہجوم۔ بڑوں سے بڑھ کر بچے قطار اندر قطار۔ اور اتنے خوش جیسے عید منا رہے ہوں۔ جشن کا پروگرام مرتب کرنے والوں نے بھی خاص طور پر بچوں کو پیش نظر رکھ کر پروگرام ترتیب دیا تھا۔ باہر وسیع و عریض لان میں کمسن طلبا اور طالبات اپنی اسکول والی وردی میں چاق چوبند قطاریں بنائے جیسے مارچ کر رہے ہوں۔
ایسے طلباء بھی نظر آئے و نیز طالبات جو گریجویشن کے مراحل سے گزر رہے تھے اور یہ دور دور کی بستیوں سے آئے ہوئے تھے۔ کوئی بنوں سے' کوئی کوہاٹ سے' کوئی سوات سے۔ کوئی ایسا ہی طالب علم ہم سے بھڑ گیا۔ اس کے سوالات سن کر ہمیں تھوڑا تجسس ہوا اور پوچھا کہ کس شہر سے آئے ہو اور کونسے کالج کے طالب علم ہو۔ بولا ''ہزارہ یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں۔ اسی علاقے کا رہنے والا ہوں''۔
پھر ہم ادھر ادھر ہو گئے۔ وہ بھی کسی سمت میں نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر نمودار ہوا۔ اب اس کی بغل میں ایک کتاب تھی۔ کہنے لگا کہ ایک بزرگ پرانی کتابیں مفت بانٹ رہے ہیں۔ میں جوائس کا ناول یولیسس(Ulysses) لے آیا ہوں۔ میں اسے پڑھوں گا اور اس کا ترجمہ کروں گا۔ ہم نے کہا کہ برخوردار پہلے کمر ہمت باندھ کر اسے پڑھ تو لو۔ جب پڑھ لو گے تو سمجھنا کہ تم نے جدید فکشن کا ہفت خواں طے کر لیا ہے۔ پھر سوچنا کہ تم اسے ترجمہ کر بھی سکتے ہو۔
یولیسس اس نوجوان کے ہاتھ میں دیکھ کر مسعود اشعر مچل گئے ''ارے یہ ناول تو مجھے بھی چاہیے''۔ اس نوجوان نے اپنی خدمات پیش کیں اور جھٹ پٹ وہاں جا کر اس ناول کی دوسری کاپی حاصل کی اور مسعود اشعر کی نذر کر دی۔
مطلب یہ نکلا کہ ؎
ہر بیشہ گمان مبر کہ خالیست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
یاد آیا کہ پچھلے برس بھی ہمیں ایک ایسے طالب علم سے پالا پڑا تھا جو ایسے ہی دور دراز علاقہ سے آیا تھا۔ کریدنے پر پتہ چلا کہ کتابوں کا واقعی کیڑا ہے اور جتنا بھی پڑھا ہے سوچ سمجھ کر پڑھا ہے۔ اس بنیاد پر کتاب کے اچھے قاری کا اول انعام حاصل کیا۔ تو یہ مت سوچو کہ ذہین طالب علم صرف بڑے شہروں میں ہوتے ہیں جہاں یونیورسٹیاں ہیں' کالج ہیں' لائبریریاں ہیں' علمی ادارے ہیں' دور افتادہ بستیوں میں بھی جو ہر قابل چھپے ہوئے ہیں۔ کسی کسی کو اپنے جوہر کو آشکار کرنے کا موقعہ میسر آ جاتا ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے جو کتاب میلہ کی طرح ڈالی ہے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دور افتادہ بستیوں اور علاقوں میں جو ایسے جو ہر قابل بھٹکتے پھرتے ہیں انھیں ایسے موقعوں پر اپنی ذہانت آشکار کرنے کا موقعہ میسر آ جاتا ہے۔
کتاب' کتاب' کتاب۔ ہر نشست میں' ہر بحث میں ہر پھر کر یہی مسئلہ کہ ہمارا معاشرہ کتاب سے بیگانہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں آخری نشست خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔ اس جشن میں جو مصنف' جو ادیب' جو پروفیسر جو اہل علم شریک تھے وہ الگ الگ نشستوں میں زیر بحث موضوع پر گفتگو کرنے کے بعد اب اکٹھے ایک ہال میں جمع تھے۔ اب ان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے ان کے پاس کونسی ٹھوس تجاویز ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ سمجھ لیجیے کہ تجاویز کا پٹارا کھل گیا۔ ہم نے کہا کہ بابا تجاویز برحق۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ایسے اجلاس کے بعد کوئی کمیٹی ان ساری تجاویز کو اکٹھا کر کے جانچتی پرکھتی ہے۔ اور کیا اس ڈھیر سے بامعنی اور قابل عمل جو تجاویز برآمد ہوتی ہیں انھیں جامۂ عمل پہنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے ؎
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں
مگر انعام الحق بہت مستعد نظر آتے تھے۔ دیکھیں اگلے یوم کتاب کے آتے آتے وہ کیا کچھ کر دکھاتے ہیں۔