کمپنی بہادر کو قرض دینے والا دیسی
ایک ایسادولت مندبھی گذرا ہے جس کے خاندان میں نہ کسی نے پہلے اتنی دولت کمائی نہ اس کے بعد اس کی دولت کے چرچے سنے گئے
آپ نے چودھویں صدی کی افریقی بادشاہت مالی کے متولی منسا موسی کا تذکرہ شاید سنا ہو۔کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ جب حج پر روانہ ہوا تو ٹمبکٹو تا مکہ پورے راستے میں سونا بانٹتا گیا۔
آپ نے اسی دور میں اٹلی کے علاقے فلورنس میں پنپنے والی میدیچی فیملی کا بھی تذکرہ سنا ہو گا جسے جدید بینکاری کا باپ کہا جاتا ہے اور اس خاندان کا شمار چودھویں اور پندرھویں صدی کے اٹلی کے سب سے معروف کاروباری خاندان کے طور پر آج بھی زندہ ہے۔
آپ نے اسی دور میں ابھرنے والے ایک جرمن یہودی ساہوکار خاندان روتھ چائلڈز کا بھی شاید کہیں نہ کہیں تذکرہ سنا ہو۔اس خاندان نے کانکنی ، بینکاری ، رئیل اسٹیٹ اور اجناس کی تجارت سے اتنی دولت کمائی کہ یورپی باد شاہتیں ان سے جنگیں جاری رکھنے کے لیے قرض لیا کرتی تھیں۔
آپ نے حیدرآباد دکن کے عثمانیوں کا بھی تذکرہ سنا ہوگا کہ جن کی دولت کا اندازہ یوں لگایا جاتا تھا کہ اگر ان کی تحویل میں موجود سونے کو پگھلا کے ایک پتلے تار کی طرح کوٹا جائے تو یہ تار کرہِ ارض کے گرد لپٹ سکتا تھا۔
جدید امریکا کے راک فیلرز ، فورڈز اور آج کے ایلون مسک ، مارک زکر برگ ، بل گیٹس وغیرہ تو خیر ہمارے اپنے زمانے کی داستانیں ہیں۔حاتم طائی سے انیل امبانی تک کچھ تو حقیقی کہانیاں ہوتی ہیں اور کچھ یار لوگ زیبِ داستان کے لیے بڑھا بھی دیتے ہیں۔
مگر تاریخ میں ایک ایسا دولت مند بھی گذرا ہے جس کے خاندان میں نہ کسی نے پہلے اتنی دولت کمائی نہ اس کے بعد اس کی دولت کے چرچے سنے گئے۔لیکن جب تک وہ زندہ رہا برصغیر کا سب سے امیر فرد رہا۔ پندرہ سو نوے میں اکبرِ اعظم کے دور میں گجرات کے شہر سورت میں پیدا ہوا اور سولہ سو ستر میں اورنگ زیب کے زمانے میں لاپتہ ہوگیا۔
اس کردار کا نام ویرجی وہرہ ہے۔وہ ہندو تھا یا مسلمان ، وہرہ تھا کہ بوہرہ۔اس بارے میں مورخ آج تک اٹکلیں لگا رہے ہیں۔مگر ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مالی طور پر کھڑا رکھنے میں ویرجی کا کردار خاصا اہم ہے۔بالکل ایسے جیسے روتھ چائلڈز فیملی نے یورپی بادشاہتوں کے اللوں تللوں سے نپٹنے میں ان کی مدد کی اور خود بھی بے انتہا منافع کمایا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق ویر جی وہرہ کی دولت کا تخمینہ اسی لاکھ روپے ہے۔یہ اسی لاکھ روپے ساڑھے چار سو برس قبل اس دور کے ہیں جب لندن میں سونے کی ( اٹھائیس گرام ) قیمت چار پاؤنڈ اسٹرلنگ فی اونس تھی۔
ویر جی نے دولت اس طرح کمانی شروع کی کہ وہ اجناس کے ذخائر یکمشت ایڈوانس دے کے سستے داموں خریدتا اور طلب و رسد کو اپنے تجارتی ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول کرتا تھا۔
بالخصوص مصالحہ جات، موتی، سونا، ہاتھی دانت، سیسہ، افیون وغیرہ کی ہر کھیپ بنگال سے گجرات تک اور گجرات سے کرناٹکا تک اس کی زیرک نگاہ میں رہتی تھی۔جنوب مشرقی ایشیا سے خلیج فارس اور بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں تک اس کے کاروباری ایجنٹ پھیلے ہوئے تھے جو نقد پر مال اٹھاتے۔
مغل دارالحکومت آگرہ میں ویر جی کا تجارتی دفتر تھا جس کے ذریعے اسے درباری سرگرمیوں کی سن گن ملتی رہتی۔آگرہ اس دور میں نیل کی تجارت کا بھی ایک اہم مرکز تھا۔آگرہ اور سورت کے درمیان برہان پور کپڑا سازی کی صنعت کا بڑا تجارتی مرکز تھا۔
جنوب میں گوا ، گولکنڈہ اور کالی کٹ کی مصالحہ منڈی میں ویرجی نرخ طے کرتا تھا۔سورت میں قائم ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی کوٹھی ویر جی کے توسط سے ہندوستانی مصالحوں ، کپاس اور افیون کی سب سے بڑی خریدار تھی جسے یورپ میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا تھا۔
مصالحوں اور اجناس کی اس تجارت میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی میں مسابقت کا مالی فائدہ ویرجی نے خوب خوب اٹھایا۔کمپنی بہادر کے ایجنٹ بالا بالا ویرجی کی مدد سے اپنا نجی کاروبار بھی چمکاتے رہے اور اس پیسے سے انھوں نے برطانیہ اور ہالینڈ میں جائیدادیں بنائیں۔گویا دونوں فریقوں کے لیے بقول شخصے '' ون ون سچویشن '' تھی۔
ویر جی اپنی آمدن کو عیاش رجواڑوں اور ہوسِ ملک گیری میں مبتلا ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بیاج پر قرض دے کر بڑھاتا رہا۔
وہ اپنے دور کا واحد ہندوستانی تاجر تھا جسے سورت کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے والے کمپنی بہادر کے مال بردار جہازوں تک سب سے پہلے رسائی ملتی اور وہ کھیپ چڑھانے اور اتارنے سے پہلے ہی سودا کرنے کا مجاز تھا۔
کمپنی بہادر کے ریکارڈ کے مطابق ویر جی نے سولہ سو انیس تا سولہ سو انہتر کے درمیان ایسٹ انڈیا کمپنی کو مختلف مہمات اور تجارتی منصوبوں کے لیے لگ بھگ آٹھ لاکھ کلدار محمودی روپیہ بطور قرض دیا۔
ویرجی کی گجرات کے مغل گورنر اسحاق بیگ تک براہِ راست رسائی تھی۔اس ناتے ویرجی مقامی تجارتی پالیسی اور تقرریوں تبادلوں پر بھی اثرانداز ہوتا تھا۔ اسحاق بیگ کے بعد مقرر ہونے والے مغل گورنر میر موسی کی درپردہ شراکت داری سے ویرجی نے خلیجِ فارس سے ہندوستان درآمد ہونے والے موتیوں کی تجارت پر مکمل تسلط حاصل کر لیا۔
میر موسی کے بعد حاکم سدرہ عرف مسیح الزماں گجرات کا گورنر مقرر ہوا اور اس نے مقامی تاجروں پر کاروباری سختی شروع کر دی۔ویر جی نے اس پالیسی کی مخالفت کی تو حاکم سدرہ نے ویر جی پر خردبرد ، چوربازاری اور بدعنوانی کے لگ بھگ پچاس الزامات عائد کر کے اسے قید کر لیا۔ویرجی نے شاہجہاں کے دربار میں خود پر ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں درخواست دی۔
بادشاہ نے گورنر اور ویرجی کو طلب کر لیا اور شنوائی کے بعد حاکم سدرہ کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ویر جی نے شاہ جہاں کو بطور تشکر چار عربی النسل گھوڑے اور اس کے بیٹے شہزادہ مراد بخش کو اعلیٰ نسل کے اٹھارہ گجراتی بیل بجھوائے۔
مگر ویر جی بھی بالاخر مغلوں اور مراٹھوں کی چپقلش کی چکی میں پس گیا۔سولہ سو چونسٹھ میں شیوا جی نے سورت پر حملہ کیا اور نہ صرف ویر جی کی حویلی تہہ و بالا کردی بلکہ گودام اور ویر جی کا ذاتی سونا اور جواہرات بھی لوٹ لیے۔ ویر جی کی کمر اس لیے نہ ٹوٹ پائی کہ اس کے اثاثے سورت سے باہر بھی ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ان اثاثوں نے دوبارہ اسے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی مگر پہلے جیسی بات نہ رہی۔
ویر جی نے اپنی کاروباری سلطنت اپنے پوتے نانچند کے حوالے کر دی اور سولہ سو ستر کے بعد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریکارڈ میں ویر جی کا تذکرہ غائب ہو گیا۔گمان یہی ہے کہ وہ سولہ سو پچھتر کے آس پاس گوشہ نشینی کی حالت میں دنیا سے کوچ کر گیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)