سائفر نامہ
سابق پرنسپل سیکریٹری اور بیوروکریٹ اعظم خان نے 164 قانون کے تحت اپنا بیان متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا ہے
ہمارے ہاں '' تبدیلی'' کی نوید سنانے والے کو عرف عام میں '' یوتھیا '' کہا جاتا ہے، یار دوستوں نے تو ان یعنی پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ''یوٹرن'' لینے کی بنیاد پر لاتعداد اقسام بنا لی ہیں، مگر آج کی نشست میں ہم دو اقسام کو زیر بحث لائیں گے۔
پہلے نمبر کے پی ٹی آئی کے کارکن کی قسم ان افراد پر مشتمل ہے، جنھوں نے نا سیاسی ماحول میں پرورش پائی اور نہ ہی ملکی سیاسی تاریخ کے مطالعے سے انھیں آگاہی دی گئی اور نہ ہی '' تبدیلی قیادت'' کی جانب سے انھیں سیاسی طور سے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی تربیت دینے کا بندوبست کیا گیا، پی ٹی آئی کے کارکنوں کی اس قسم کو صرف ہر بات پر غلام کی مانند ''جی حضوری'' کی صلاحیت سے مالا مال کر کے ہر من گھڑت جھوٹ اور مکروہ فریب کو سچ مان کر یقین کرنا سکھایا گیا۔
یاد رہے کہ یہ نوجوانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پیدائش جنرل ضیا کے آمرانہ دور یا بعد میں ہوئی، جب ہر طرح کی سیاسی سوچ و فکر پر نہ صرف پابندی تھی بلکہ سیاسی ذہن بنانے کی پہلی درسگاہ کالج اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی سیاسی آزادی کو نہ صرف غیر آئینی آرڈیننس کے ذریعے روکا گیا۔ بلکہ درسگاہوں میں غیر آئینی اقرار نامہ کہ '' میرا کسی بھی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور نہ میں کسی طلبہ سیاست میں سرگرم ہوں گا/گی''، یہ اب تک کی ستم ظریفی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے باوجود ''تبدیلی قیادت'' کے ساڑھے تین سالہ دور سمیت کسی بھی جمہوری کہلائی جانے والی حکومت نے آمر ضیا کے آئین کے منافی طلبہ کی حق یونین سازی کو بحال نہیں کروایا ہے۔
مثال کے طور پر جب کسی پی ٹی آئی کے کارکن کے پاس تاریخی اور سیاسی معلومات کی کمی ہوتی ہے توایسے مرحلے کے لیے اسے تربیت دی گئی ہے کہ بس پرانی حکومتوں یا جماعتوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کہہ کہہ کر سامنے والے کا منہ بند کردو۔
آج کل کی سیاست میں توشہ خانہ، منی لانڈرنگ، القادر یونیورسٹی کا قیام اور 9 مئی کے واقعات اور مقدمات کا ذکر کیا کم تھا کہ پچھلی حکومت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے '' تبدیلی قیادت'' کی جانب سے جلسوں میں لہرایا گیا '' سائفر نامہ'' دوبارہ منظر عام پر لے آئے، خبرکے مطابق سابق پرنسپل سیکریٹری اور بیوروکریٹ اعظم خان نے 164 قانون کے تحت اپنا بیان متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا ہے، جس میں اعظم خان نے انکشاف کیا ہے کہ سائفرکی کاپی سابق وزیراعظم کو ڈیوٹی سمجھ کر دی گئی تھی، مگر جب دوسرے دن وہ کاپی مانگی گئی تو سابق وزیراعظم نے کہا کہ سائفرکی کاپی گم ہوچکی ہے۔
اعظم خان کا 164کے بیان میں استدلال تھا کہ انھوں نے سابق وزیراعظم کو منع کیا تھا کہ یہ خفیہ دستاویز ہے لہٰذا اس کو پبلک کرنا آئین کی خلاف ورزی تصور ہوگا وغیرہ۔ اعظم خان کے مذکورہ بیان پر بعض تجزیہ کار اور یوٹیوبر بار بار اعظم خان کے مذکورہ بیان پر اور ان کی نامعلوم گمشدگی کے بعد اچانک بیان دینے پر بیانیہ بنا رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ گمشدہ شخص اچانک منظر عام پر آجائے اور وہ عوام میں سائفر ڈرامے کے مرکزی کرداروں کو بے نقاب کردے، بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی استدلال ہے کہ کیا 164 کے تحت بیان لینے کے تمام ضابطوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے؟
چلیے تھوڑی سی دیر کے لیے گمشدہ شخص کا اچانک نمودار ہونا اگر کسی دبائو کا نتیجہ ہے تو کیا سائفرکو جلسے میں لہرا کر بیانیہ بنانے کی حقیقت سے یہ تجزیہ کار انکار کر سکتے ہیں۔ دوم، اگر اعظم خان کا مذکورہ بیان واقعی کسی دبائو کا نتیجہ ہے تو کیوں متعلقہ ادارے کے سامنے حقائق لے جا کر اعظم خان کو بھی غلط ثابت کر دیا جاتا اور متعلقہ مجسٹریٹ کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا جاتا۔
سوال یہ ہے کہ اعظم خان کے سائفر نامہ کے انکشافات پر جس تیزی سے دیگر مقدمات میں عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے تو اس بیان پر کیوں عدالتی درخواست نہیں کی جارہی یا سائفر نامے پر لاہور ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر کیوں لیا گیا تھا۔
سوم، بات یہ ہے کہ کیا تجزیہ کار کسی بھی ''سچ'' کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ شد و مد کیوں نہیں دکھا رہے جو تشویش سائفر کے انکشافات پر انھیں ہے، بلکہ اب تو اعظم خان نیب میں بھی بیان دینے پہنچ گئے ہیں، بادی النظر میں اصل حقائق اور سچ کو متنازعہ بنانے کی یہ وہ کوشش ہے جو وہ مسلسل توشہ خانہ کیس، منی لانڈرنگ کیس، القادر یونیورسٹی کیس میں تاریخ پر تاریخ لے کر کیسز کو غیر موثر کرنے کی چال ہے جو جھوٹ بولنے کے ذریعے حقائق چھپانے کے گڑھے گئے بیانیے کا منہ چڑاتا سچ ہے۔
جمہوری تقاضے کے مطابق ہر ایک کو رائے رکھنے اور دوسرے کی رائے کا احترام ایک ایسا جمہوری قدم ہے جو تاریخ کے سیاق و سباق کو چبا نہیں سکتا، ٹی وی پر گفتگو کے دوران جب مقدمات نہ چلانے پر حکومت کی کمزوری کہا جائے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ عدالت پر دبائو نہیں یا جب نواز شریف کے وطن آنے یا نہ آنے پر سوال اٹھایا گیا تو تجزیہ کار کا استدلال تھا کہ عوام میں معروف اور ہر دلعزیز سمجھے جانے والے رہنما کے لیے ''جیل'' جانا ان کے سیاسی قد کو بڑھاتا ہے اور عوام میں اس رہنما کی پذیرائی زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے دوست کی رائے محترم، مگرکیا یوتھیے تجزیہ کار گزشتہ چودہ ماہ سے عوامی شہرت کی بلندی پر '' تبدیلی قیادت'' کا راگ نہیں الاپ رہے ہیں مگر انھیں کراچی میں حکیم بلوچ کے ہاتھوں شہرت کے بام عروج کی شکست نظر نہیں آتی، یا اگر واقعی عوامی سطح پر معروف رہنما عوام میں گرفتار ہو کر یا جیل یاترا کر کے شہرت اور ووٹ لینے کی بلندی پر پہنچ سکتا ہے تو ''تبدیلی قیادت'' حیلے بہانے استعمال کر کے مسلسل گرفتاری سے کیوں بچ رہی ہے، یا کہ کیا یہ درست عمل ہے کہ توشہ خانہ کیس میں '' تبدیلی قیادت '' کا سینیئر وکیل یہ کہہ کر کارروائی میں حصہ نہیں لے کہ کارروائی اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہو رہی؟