چارلی چپلن سے لے کر نور محمد چارلی تک

نور محمد چارلی نے بھی ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بطور انڈین چارلی ایک سنہری تاریخ رقم کی تھی


یونس ہمدم July 23, 2023
[email protected]

خاموش فلموں کے دور سے بولتی فلموں کے آغاز تک مزاحیہ آرٹسٹ فلمی دنیا کی ضرورت بنے رہے ہیں، ہالی ووڈ سے لے کر بالی ووڈ اور لالی ووڈ تک فلمی دنیا میں مزاحیہ آرٹسٹ آتے رہے اور فنکارانہ صلاحیتوں سے فلمی دنیا کو جگمگاتے رہے۔

فلمی دنیا کا سب سے بڑا مزاحیہ آرٹسٹ چارلی چپلن تھا جس نے خاموش فلموں سے اپنی مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا تھا اور فلم بینوں کے دلوں کو موہ لیا تھا وہ مزاح کی آبشار تھا اس کی حرکات و سکنات سے مزاح کی پھلجھڑیاں چھوٹتی تھیں۔

چارلی چپلن نے ایک مشہور مقولہ کہ '' روزانہ ایک سیب کھاؤ اور ڈاکٹر کو زندگی سے دور بھگاؤ'' پر اپنا ایک مقولہ فٹ کردیا تھا جب بھی موقع ملے '' ایک زور دار قہقہہ لگاؤ اور اپنے بدن میں خون بڑھاؤ '' چارلی چپلن مزاحیہ آرٹسٹوں کا بے تاج بادشاہ تھا جو پہلا فلم آرٹسٹ تھا جسے ''سر'' کا خطاب دیا گیا تھا۔

1972 میں چارلی چپلن کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، وہ مزاحیہ اداکاری کا ایک اسلوب اور ایک نصاب تھا اور فلمی دنیا میں آنے والا ہر مزاحیہ آرٹسٹ اس کا عکس ہی نظر آتا ہے، جب چارلی چپلن کو آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا تو یہ کہا گیا تھا کہ آسکر ایوارڈ کو مبارک ہو، اسے چارلی چپلن نے قبول کیا کیونکہ چارلی کی شخصیت آسکر ایوارڈ سے بلند تر تھی۔

چارلی چپلن کو دنیا بھر میں کامیڈی کا آئی کون قرار دیا گیا تھا وہ بحیثیت اداکار، کہانی کار، ہدایت کار 1936 سے 1952 تک فلمی دنیا کے افق پر چھایا رہا تھا۔ چارلی چپلن کو اپنا آئیڈیل بناتے ہوئے بمبئی کی فلم انڈسٹری میں نور محمد چارلی نے اپنے فلمی کیریئرکا آغاز کیا تھا اور فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔

بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری میں سریندر سے لے کر آئی ایس جوہر، گوپ، یعقوب، جگدیپ اور جانی واکر تک بہت سے مزاحیہ آرٹسٹ آئے اور مزاح کے چراغ جلا کر فلمی دنیا کو روشنی دیتے رہے۔ اب میں پھر آتا ہوں، اردو فلموں کے چارلی چپلن نور محمد چارلی کی طرف میں نے نور محمد چارلی کی ایک فلم جو پاکستان میں بنی تھی 56ء میں وہ دیکھی تھی جس میں بمبئی کی مشہور لارالپا گرل مینا شوری ہیروئن تھی، نور محمد چارلی نے بالکل چارلی چپلن کو ہی اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا ہوا تھا، مونچھوں کے اسٹائل سے لے کر حرکات و سکنات تک ہو بہو سارے انداز چارلی چپلن کی طرح ہوتے تھے۔

فلمی دنیا میں اسے انڈین چارلی چپلن کا خطاب دیا گیا تھا۔ نور محمد چارلی یکم جولائی 1911 میں گجرات کے پور بندرہ گاؤں میں پیدا ہوا تھا، اسے بھی خاموش فلموں کے زمانے سے چارلی چپلن کی فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور وہ چارلی چپلن کی فلمیں اس طرح دیکھتا تھا جس طرح کوئی بچہ تعلیم حاصل کرنے اسکول جاتا تھا۔ چارلی چپلن ہی نور محمد کا اسکول آف تھاٹ تھا۔

وہ اپنے گاؤں کے گلی اور محلوں میں چارلی چپلن کا حلیہ بنا کر پھرا کرتا تھا، لوگ اسے '' چھوٹا چارلی'' کہہ کر پکارتے تھے، وہ بچپن ہی سے ایکٹر بننے کا شوقین تھا اور فلموں میں کام کرنے کے خواب آنکھوں میں ہر وقت سجائے رہتا تھا اور پھر عمر کے ساتھ یہ شوق بھی پروان چڑھتا رہا اور ایک دن اسی شوق کے ساتھ یہ گجرات سے بمبئی شہر آگیا تھا، یہاں آ کر اسے فٹ پاتھوں پر بھی سونا پڑا، فاقے کرنے پڑے مگر اس نے ہمت نہیں ہاری کئی بار بمبئی کے فلم اسٹوڈیوز کی طرف بھی جاتا رہا اور دروازے سے ہی اسے بھگا دیا جاتا تھا پھر جیسے لوگ گر گر کر سنبھلتے رہتے ہیں یہ بھی ٹھوکریں کھاتا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔

آخر ایک ایکسٹرا سپلائر کے ساتھ دوستی کرکے یہ فلم اسٹوڈیوز میں داخل ہو گیا اس کی چال ڈھال اور اس کی حرکات و سکنات چھوٹے موٹے کردار کرنے کے لیے ایک فلم پروڈکشن میں ایکسٹرا کام کرنے پر 40,30 روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا گیا اور یہیں سے اس کی فلمی زندگی کا آغاز ہوا تھا، 1940 میں ایک فلم مسافر میں اس نے اپنی صلاحیتوں سے خود کو منوایا، تو اس کا فلمی سفر آگے بڑھتا چلا گیا۔

نور محمد چارلی کو 1942 میں فلم سنجوگ میں ایک اچھا کردار ملا اور اس فلم میں اس پر ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا جو اس دور کے ایک شاعر ارشد گجراتی نے لکھا تھا، گیت کے بول تھے۔

پلٹ ترا دھیان کدھر ہے

اور فلم میں وہ گیت نور محمد چارلی نے خود ہی گایا تھا، ایک اور گیت بھی اس نے گایا تھا جو شاعر ڈی این مدھوک نے لکھا تھا جس کے بول تھے پیہارا کاہے شور مچائے ان گیتوں کی فلم بندی میں نورمحمد چارلی نے بڑی خوب صورت اداکاری کرکے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ بمبئی میں انڈین چارلی کے نام سے ایک فلم بنائی گئی جسے سارے ہندوستان میں بڑی شہرت ملی تھی۔

اب نور محمد چارلی صف اول کا مزاحیہ آرٹسٹ بن گیا تھا۔ اس دوران اس نے بے شمار فلموں میں کام کیا اور اس وقت کے مشہور آرٹسٹوں مہتاب، واسطی، خورشید، سورن لتا جیسی آرٹسٹوں کے ساتھ خوب جم کر کام کیا تھا، نورمحمد چارلی کی نمایاں فلموں میں مسافر، ڈھنڈورا، طوفان میل، چاند تارا، اچھوت، انصاف، بے قرار، پریم گلی، بانسری، مندری، پائل، تقدیر، انصاف کے علاوہ دیگر بہت سی فلمیں تھیں اور اس دور میں نورمحمد چارلی بھی اپنے وقت کا مہنگا مزاحیہ اداکار کہلایا جاتا تھا، پھر ہندوستان کے بٹوارے کے بعد گجرات، دہلی، بمبئی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا، بہت سے مسلمان فنکاروں کی طرح نور محمد چارلی بھی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگیا تھا اور کراچی میں سکونت اختیار کی تھی یہاں نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں کام کیا مگر لاہور کی فلم انڈسٹری میں نور محمد چارلی کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی تھی۔

نور محمد چارلی نے سندھی فلم عمر ماروی اور پھر ایک فلم پرائی زمین میں بھی کام کیا، اس زمانے میں کراچی میں فلم انڈسٹری کی حالت اچھی نہ تھی صرف ایک اسٹوڈیو ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کا آغاز ہوا تھا اور کراچی میں فلم سازی کی زیادہ سہولتیں بھی میسر نہ تھیں پھر نور محمد چارلی کو لاہور کی فلم انڈسٹری سے کوئی سپورٹ حاصل نہ ہو سکی تھی اور نور محمد چارلی مایوس ہو کر آہستہ آہستہ خود ہی فلم انڈسٹری سے کنارہ کش ہوتا چلا گیا تھا جب کہ اسی نور محمد چارلی کی ہندوستان میں بحیثیت انڈین چارلی پوجا کی جاتی تھی، مشہور فنکار جانی واکر اور محمود نور محمد چارلی کے بڑے قدر دان تھے اور دونوں نور محمد چارلی کو فالو کرتے تھے۔

نور محمد چارلی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اس نے برصغیر کی نامور گلوکارہ اداکارہ ثریا کے ساتھ بھی پلے بیک گیت گایا تھا، نور محمد چارلی نے انڈین فلم اکلنا برڈن سے ڈیبو کیا تھا اور دوسری فلم لیکھ پرمیکھ اور پھر مسافر نے اس کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا، نور محمد چارلی نے فلموں میں آنے سے پہلے ایک دکان پر چھتریوں کی مرمت کا کام بھی کیا تھا اور پھر ایک دن ایک چھتری لے کر بارش کے دن امپیریل اسٹوڈیو چلا گیا تھا اور وہاں چارلی چپلن کے اسٹائل میں گھوم پھر کر فلمی دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا، اور پھر کامیابی کی دیوی اس کے قدموں میں آ کر بیٹھ گئی تھی۔

اس دور میں اداکار پرتھوی راج کپور سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے پھر ایک وقت وہ بھی آگیا کہ نور محمد چارلی انڈین فلم انڈسٹری کا سب سے مہنگا اداکار بن گیا تھا۔ نور محمد چارلی کی چھ بیٹیاں اور چھ بیٹے تھے، نور محمد چارلی نے 75 سال کی عمر میں 30 جون 1980 میں اس دنیا کو خیرباد کہا نور محمد چارلی کے بڑے بیٹے لطیف چارلی نے بھی فلموں میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کی مگر وہ فلمی دنیا میں اپنا کوئی مقام نہ بنا سکا، البتہ ٹیلی وژن کے چند ڈراموں میں اچھے کردار ادا کیے تھے اور بہت جلدی اپنی ایک شناخت پیدا کر لی تھی مگر فلمی دنیا میں لطیف چارلی کو کوئی پذیرائی نہ مل سکی تھی۔

نور محمد چارلی کا ایک پوتا نور ارشد چارلی تھیٹر کا ایک مشہور اداکار ہے جس طرح چارلی چپلن فلمی دنیا کی ایک ہسٹری تھا، اس طرح نور محمد چارلی نے بھی ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بطور انڈین چارلی ایک سنہری تاریخ رقم کی تھی، اللہ نور محمد چارلی کی مغفرت کرے۔ (آمین۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔