کیا بیورو کریسی کی اصلاح ممکن ہے
احتساب کا تصور جمہوریت اور جمہوری آزادی کے بغیر ممکن نہیں
ساری دنیا میں فلاحی ریاستیں چاہے وہ کوئی بھی نظام سیاست رکھتی ہوں وہاں بیوروکریسی حقیقی طور پر عوام کی خادم ہوتی ہے، اس کے برعکس ہماری بیورو کریسی اور عوام میں آقا اور غلام کا تصور پایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آزادی سے پہلے انگریزوں نے اپنا انتظامی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا تیار کیا تھا، جس کے ذریعے یہ کوشش کی جاتی تھی کہ عوام کو غلام کیسے رکھا جائے، انھوں نے اسی نقطہ نظر سے ایسا نظام انتظام تشکیل دیا تھا جو ان کے ان سیاسی مقاصد کو پورا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے یہ نظام انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ہمارے یہاں آج بھی جاری ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بیورو کریسی کو ہمارے سیاسی نظام میں ایک مستقل ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق الیکشن میں بیشتر سیاست دان وہی اقتدار میں آتے ہیں جن کو بیوروکریسی کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ محاورہ ہے جسے پیا چاہے وہی سہاگن کہلائے والی بات نظر آتی ہے۔ بیورو کریسی کی سیاسی نظام میں بالادستی نے ہمارے یہاں بہت سی خرابیوں کو جنم دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بیورو کریسی کی سیاسی نظام میں جو بالادستی ہے، اس سے نجات ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب سے پہلے ہمیں بیورو کریسی کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔بیورو کریسی ہمارے سیاسی نظام میں ایک بڑی قوت تسلیم کی جاتی ہے یہ عوامی نمایندوں کے مقابلے میں زیادہ باصلاحیت، منظم اور تجربہ کار ہوتی ہے، اپنے عہدے کے تسلسل کی وجہ سے انھیں اپنے کام میں اچھی طرح مہارت حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کے وسائل اور معلومات ذخائر تک ان کی رسائی ہوتی ہے، اس لیے یہ عوامی نمایندوں سے زیادہ ماہر اور باخبر ہوتے ہیں۔
سیاست دانوں کا کسی شعبے میں علم اور تجربہ خاصا محدود ہوتا ہے، دوسرے وزیر بھی انتظامی امور سے کم ہی واقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے بیورو کریسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے یوں بیوروکریسی حکومت میں طاقت کا اصل سرچشمہ بن جاتی ہے۔
بیورو کریٹ قاعدے اور ضابطے کی زنجیر میں بندھا رہتا ہے وہ تمام فیصلے دفتری نقطہ نظر سے کرتا ہے وہ ہر مسائل کو انتظامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور وہ کاغذوں، نقشوں اور دفتری رپورٹ پر انحصار کرتا ہے اسے نہ ہی زمینی حقائق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی مسائل کی نزاکتوں کو محسوس کرتا ہے۔ اس کی سوچ ہمیشہ ایک محدود اور مخصوص دائرے میں گھومتی ہے جس کی وجہ سے وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے جس کے نتیجے میں بڑے کام کی تکمیل نہیں ہو پاتی اور کام التوا کا شکار رہتے ہیں۔
بیورو کریسی کے ہاتھ میں سب سے بڑی قوت قاعدے اور قانون کی ہوتی ہے جس کو وہ اپنی صوابدید سے توڑ مروڑ کر اپنا مطلب اور مفادات کو پورا کرتی ہے اسی وجہ سے اس سے نجات کے لیے امریکی صدر نے کہا تھا بہترین حکومت وہ ہے جو کم از کم حکمرانی کرے۔ بیورو کریسی سیاستدانوں کو غیر ضروری عنصر تصور کرتی ہے وہ مسئلے کے حل کے لیے غیر سیاسی ماہرین پر انحصار کرتی ہے اور ان کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتی ہے کہ سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان ممالک کو سیاسی طور پر مستحکم اور ترقی یافتہ بنانے میں ماہرین کا نہیں سیاسی قائدین کا کردار اہم رہا ہے۔ حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی میں ان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ یہ سیاستدانوں کی طرح عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے اس لیے عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو اولیت دیتے ہیں جس سے عوامی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو یہ کاغذی گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان کیونکہ فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں انھیں مفت میں بدنامی حاصل ہو جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بیورو کریسی کی اصلاح کیسے کریں؟ میرے نزدیک بیورو کریسی کی بالادستی کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کا مضبوط نہ ہونا ہے۔ بار بار مارشل لا اور غیر جمہوری قوانین کے نفاذ کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کام کرنے اور اپنے کارکنان کی تربیت کرنے کا موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں غیر سول اور سول افسر شاہی کی فراہم کردہ دائرہ عمل کے اندر کام کرنے پر مجبور رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کس طرح مضبوط بنایا جائے؟
سیاسی جماعتوں کو پروان چڑھانے اور انھیں منظم کرنے کے لیے فطری سیاسی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے سیاسی جماعتوں کی پرورش اور تربیت سیاسی ماحول میں ہی ممکن ہے محض سیاسی انجینئرنگ کرکے سیاسی جماعتوں کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔ سرکاری نرسری میں پیدا ہونے والی جماعتوں کے ذریعے سیاسی نظام کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سرکاری نرسری میں پیدا ہونے والی جماعتیں کسی اصول پر مرتب نہیں ہوتیں وہ مفادات کے زیر اثر ہوتی ہیں وہ کیونکہ کسی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں جنم نہیں لیتیں۔
یہ بھان متی کا کنبہ ہوتا ہے جس کا نہ کوئی قبلہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلمہ قائد اور نہ ہی اس کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں یہی وجہ ہے جیسے ہی مفادات تبدیل ہوتے ہیں یا حالات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے یہ جماعتیں اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ جمہوری نظام کو تسلسل کے ساتھ نہ صرف جاری رہنے دیا جائے بلکہ اسے مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے۔
بعض عناصر سیاسی نظام میں سیاست دانوں کی اصلاح کی بات کرتے ہیں اور بالخصوص ان کے احتساب پر زور دیتے ہیں ان عناصر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ احتساب کا تصور جمہوریت اور جمہوری آزادی کے بغیر ممکن نہیں، احتساب کی سب سے پہلی شرط آزاد فضا جہاں آزادی اظہار ہونا لازم ہے، اسی وقت کوئی عام سا '' بدو'' اٹھ کر خلیفہ وقت سے اس کی قمیص کا حساب مانگ سکتا ہے۔ ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔