تجزیہ کتب

شہزاد سلطانی ادب کا بہترین ذوق رکھتے ہیں، قلم کار بھی ہیں، ان کی تحریریں بارہا نظر سے گزریں


Naseem Anjum July 23, 2023
[email protected]

ڈاک کے ذریعے ماشا اللہ ہر دوسرے روزکتابیں موصول ہوتی ہیں اس کے علاوہ ایک خاص ذریعہ اور بھی ہے، وہ ہے کراچی کے ممتاز تقسیم کار شہزاد سلطانی کا وہ عرصہ دراز سے کتب و جرائد خلوص کے ساتھ ترسیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

شہزاد سلطانی ادب کا بہترین ذوق رکھتے ہیں، قلم کار بھی ہیں، ان کی تحریریں بارہا نظر سے گزریں جوکہ خوش آیند بات ہے،کتابوں سے انھیں عشق ہے شاید یہی وجہ ہے وہ ادبی محافل میں شمولیت کو اولیت دیتے ہیں، انھیں ان نشستوں میں تربیت کا موقع میسر آتا ہے۔ ان کی ادب کی خدمت کی بدولت کتابیں گم ہونے کا خدشہ لاحق نہیں ہوتا ہے۔

حال ہی میں انھوں نے ہمیں کئی کتابوں سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔کتاب '' اسپین، اقبال کا دوسرا خواب'' یہ نظم ''بال جبریل'' میں شامل ہے، اس کے شارح ڈاکٹر عابد شیروانی ہیں، ان کا تعلق شعبہ قانون سے ہے، ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔

یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے کہ عابد شیروانی اقبال جیسے عظیم شاعر کے مداح ہیں، کئی اہم ناقدین کی آرا سے کتاب مرصع ہے۔ نسیم سحر کی رائے کے مطابق عابد شیروانی نے برسوں کی محنت اور تحقیق اس نظم کی تفہیم میں ہی صرف نہیں کی بلکہ نظم میں جو تلمیحات اور تاریخی حوالے دیے گئے ہیں، ان کا مفصل پس منظر بھی مہیا کردیا ہے، جس سے اس نظم کی تفہیم آسان ہوگئی ہے، مثلاً مارٹن لوتھرکی پروٹسٹنٹ تحریک اور اس کے نتیجے میں عیسائی فرقہ بندی اور طویل جنگیں، انقلاب فرانس کی تفصیل، اٹلی میں مسولینی کے فاشسٹ انقلاب کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم اسپین کی تاریخ کا تفصیلی بیان اور مسجد قرطبہ کے جمالیاتی پرشکوہ پہلو کو بھی صاحب کتاب نے انتہائی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔

علامہ اقبال کی اس نظم کے ہر بند، ہر شعر اور ہر تلمیح کو انھوں نے اس قدر بلاغت کے ساتھ آسان فہم زبان میں بیان کردیا ہے کہ نہ صرف یہ نظم بلکہ علامہ اقبال کا آفاقی وژن بھی آشکارا ہو جاتا ہے۔

عابد شیروانی کی محنت شاقہ کی بدولت یہ کتاب منظر عام پر آئی ہے ان کے دوست افتخار احمد اور ان کے اپنے ذوق و شوق نے دیوان غالب اور کلام اقبال کو سمجھنے کے لیے گھنٹوں دیدہ ریزی کی اس کے ساتھ ایک باقاعدہ اسٹوڈیو ''علامہ اقبال اسٹوڈیو'' کے نام سے قائم کیا اور اسی نام سے یوٹیوب پر ایک چینل بھی بنایا، اقبال کی تشریحات کی وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنا شروع کردیں، ان وڈیوز کے آٹھ ملین فالورز ہیں جو کوئی بھی اسلام اور وطن سے محبت اور وہ ملت کا خیرخواہ اور نوجوانوں کے مستقبل کے لیے فکر مند ہوگا اور اگر وہ مفکر شعری ذوق بھی رکھتا ہو تو اسے قدرتی طور پر اقبال کی شاعری متاثر کرے گی اور موجودہ دور کو دیکھتے ہوئے وہ اقبال کے کلام اور فکر پر اپنا قلم ضرور اٹھائے گا۔

ڈاکٹر عابد شیروانی کے اسی جذبے نے اشعار کی تشریحات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اقبال کے کلام کو آسان کردیا ہے یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے، میں انھیں مبارک باد پیش کرتی ہوں۔

''خواجہ ستارالحسن جمیل اکبر آبادی' شخصیت اور فن'' اس کتاب کے مولف پروفیسر خواجہ قمرالحسن ہیں، کتاب کے مولف پروفیسر خواجہ قمرالحسن نے نیک اور فرمانبردار اولاد کی طرح اپنا حق فرزندگی ایسے طرز سے ادا کیا ہے کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار کی نثری و شاعرانہ کاوشوں کو یکجا کرکے کتابی شکل میں ڈھال دیا، یہ گویا ایک لائق بیٹے کا اپنے والد صاحب کے لیے خراج تحسین اور عقیدت ہے انھوں نے اپنے والد صاحب کی ادبی خدمات کو کتاب کی شکل میں اجاگر کرکے اہم کام انجام دیا ہے۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے مضمون ''ایک خوش آیند احساس'' میں خواجہ ستارالحسن جمیل اکبر آبادی کا تعارف اور اہم معلومات کے حوالے سے لکھا ہے کہ '' ایک طویل عرصے کے بعد پروفیسر خواجہ قمرالحسن کا ذکر میرے غریب خانے تک پہنچا اور ساتھ میں پروفیسر صاحب کا ایک کرم نامہ یا بلکہ حکم نامہ مع کچھ شعری کلام کے ساتھ تھا، جس کے بارے میں پتا چلا کہ ان کے والد خواجہ ستارالحسن جمیل اکبر آبادی (1901۔1975) کے فکر سخن کا نتیجہ ہے، یوں خواجہ قمرالحسن سے مزید تعارف مزید خوشی کا سبب بنا، ان کے والد محترم اپنے شعری وصف میں سیماب اکبر آبادی کے شاگرد رشید ہیں اور مزید انفرادیت یہ بھی حاصل تھی کہ عصری صحافت میں سرگرم تھے اور ایک رسالہ ''فرشتہ'' کے مدیر تھے جسے وہ 28 مارچ 1924 تک آگرہ سے نکالتے رہے۔

سیماب اکبر آبادی کی شاگردی، صحافت سے وابستگی اور فرشتہ کا اجرا اور اس کی ادارت تعارف کے لیے یہ ایسے لوازم تھے کہ یقین کیا جاسکتا تھا کہ جس زمانے میں رسالہ '' فرشتہ'' جاری کیا وہ اردو کی روایتی صحافت کا دور زریں تھا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمیل اکبر آبادی کا نہ صرف ایک تخصیصی مطالعہ ان پر بطور صحافی یا ان کی صحافیانہ خدمات کا کیا جائے اور مزید بہتر ہوگا کہ کسی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت یا '' شعبہ ابلاغ عامہ '' میں یہ مطالعہ کسی طالب علم سے کم از کم ایم فل کی سطح پر کرایا جائے جو بعد میں محفوظ بھی ہو اور شایع بھی ہو سکے۔'' کتاب خوبصورت شاعری اور نثر سے آراستہ ہے۔''

''دردِ زیست'' اور ''خیال رکھنا'' چند ہفتے قبل بہ ذریعہ ڈاک موصول ہوئی، ''دردِ زیست'' رضیہ بیلا سید کے مضامین، افسانے اور نظموں پر مشتمل ہے جب کہ ''خیال رکھنا'' کے مصنف جاوید محسن ملک ہیں۔ جاوید محسن ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور درس و تدریس سے وابستہ رہے، کئی سفرنامے اور مضامین جوکہ انھوں نے اسپورٹس اور سائنس پر لکھے اور پھر وہ انگریزی اور اردو کے روزناموں میں شایع ہوئے، ان کے سفر نامے بعنوان نگری، نگری تذکرہ احباب اور ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ سفرنامے بہت سی معلومات کے در وا کرتے ہیں، ان کی تصانیف میں 50 سے زیادہ درسی کتب، (اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے لیے) شامل ہیں۔

یہ معلوماتی اور دلچسپ مضامین پر مشتمل مجموعہ ہے، مصطفیٰ زیدی اور شہناز، بدقسمت خاندان، ایم ایم عالم، سانحہ اوجھڑی کیمپ تمام مضامین قاری کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ کتاب میں 230 اردو کے صفحات اور 25 انگریزی کے گویا ڈھائی سو صفحات (255) کا احاطہ کرتی ہے۔''دردِ زیست'' جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ جو زندگی کے سانحات ہیں ان سے کتاب کی مصنفہ رضیہ بیلا سید کو بھی واسطہ پڑا اور اپنوں کے مکر و فریب نے انھیں گھر سے بے گھر کر دیا، ایک ہنستا بستا گھر اجڑگیا، شاید کسی دشمن کی نظر ان کی خوشیوں اور سکون کو کھا گئی، بیلا سید کے حوالے سے ان کی گہری دوست ممتاز لکھاری فرحت پروین ملک نے مضمون لکھا ہے جوکہ بیلا سید کے بارے میں بہت سی اہم باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

رضیہ بیلا سید کی ہر تحریر خون سے لکھی گئی ہے، اپنوں کی موت نے انھیں شکستہ کردیا ہے پہلے ان کے شوہر نام دار نجیب سید کو قتل کیا گیا جن کی عمر صرف 52 سال تھی اور مرحوم نجی بیمہ کمپنی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تھے اس جان لیوا واقع کے بعد ان کا جواں سالہ بیٹا جان سے گیا، محض موبائل چھیننے کے لیے اس سفاک نے ایک دکھیاری ماں کا سہارا چھین لیا، گوکہ بیلا سید کے دو بچے اور ہیں اللہ انھیں سلامت رکھے، بیلا سید کس کس بات پر نوحہ پڑھیں کہ ظلم کی حد ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ مرحوم بیٹے نے اپنا گھر کم قیمت میں بیچ کر ماموں کی مدد کی لیکن ان کے خاندان نے ایک بیوہ عورت کے سر سے چھت چھین لی۔

بیلا سید بہت اچھی قلم کار ہیں، دو کتابیں ان کی شایع ہو چکی ہیں، شاعری بھی کرتی ہیں، ان کی نثر نگاری اور شاعری متاثر کن ہے۔ اللہ انھیں صبر دے اور ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچائے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں